ملک میں جاری توانائی کے بد ترین بحران پر قابو پانے کی حکومتی کوششوں کے باوجود یہ مسئلہ جوں کا توں موجود ہے، سردیوں میں گیس کی قلت کی وجہ سے سی این جی اور دیگر سیکٹرز کو سپلائی بند کر دی گئی تھی‘ تاہم سردیوں میں بجلی کی سپلائی کی صورتحال میں قدرے بہتری آئی تھی اور لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ کچھ کم ہوگیا تھا‘ ملک بھر میں بجلی اور گیس کی شدید کمی کے باعث تمام شعبے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں‘ موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد توانائی کے بحران پر قابو پانے کےلئے کئی منصوبے بنائے‘ ان منصوبوں میں نئے پاور پلانٹ لگانے، موجودہ پاور پلانٹس کی استعداد بڑھانے، ایل این جی کی درآمد اور دیگر کئی منصوبے شامل تھے‘ نئے پاور پلانٹ لگانے کے طویل المدتی منصوبوں کے مکمل ہونے میں ابھی خاصا وقت باقی ہے‘ تاہم موجودہ پاور پلانٹس کی بجلی پیدا کرنے کی استعداد بڑھانے اور ایل این جی کی درآمد پر فوری طور پر عملدرآمد کر دیا گیا‘ملک کے مختلف حصوں میں موجود پاور پلانٹس کی استعداد بڑھانے سے بجلی کی پیداوار میں کچھ اضافہ تو ہوگیا لیکن یہ اضافہ ملک میں بہت کم تھا جس کی وجہ سے اس اضافے سے بجلی کے بحران کو کم کرنے میں بہت زیادہ مدد نہ مل سکی‘پاکستان میں انرجی بحران گزشتہ کئی سالوں سے اپنے عروج پر ہے ‘گرمیوں کا موسم شروع ہوتے ہی ملک بھر میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں نمایاں اضافہ ہوگیا ہے جس کی وجہ سے ملک بھر میں نہ صرف عوام اس بدترین لوڈ شیڈنگ سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں‘ بلکہ صنعتوں کو بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
ملک بھر کے تاجر اور صنعتکار طویل لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے پریشانی کا شکار ہیں کیونکہ بجلی کی کمی اور لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے صنعتی پیداوار بری طرح متاثر ہو رہی ہے اور صنعتکار برآمدی آرڈر پورے کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں‘حکومت برآمدات کے فروغ کےلئے بجلی اور گیس کی بلا تعطل فراہمی کو یقینی بنائے کیونکہ یورپی یونین میں ملنے والے جی ایس پی پلس درجے سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لئے صنعتی پیداوار بڑھانے کی ضرورت ہے لیکن ملک میں بجلی اور گیس کی قلت کی وجہ سے صنعتی پیداوار میں مزید کمی کا خدشہ ہے اور اگرصنعتی پیداوار میں اضافہ نہیں ہوگا تو جی ایس پی پلس درجے کا بھرپور فائدہ نہیں اٹھایا جاسکے گا‘جبکہ آئندہ دو سالوں میں تیل کے متبادل ذرائع ”ایل این جی“ کو پوری دنیا میں بے پناہ اہمیت حاصل ہو جائے گی کیونکہ پوری دنیا میں خصوصاً تیل اور گیس پیدا نہ کرنے والے ممالک میں تیل کی اپنی اہمیت تو ہے لیکن گیس کے متبادل ” ایل این جی“ ہی انرجی کا حل سمجھا جاتا ہے‘ نیچرل گیس جسے مائع قدرتی گیس بھی کہا جاتا ہے، مشرقی ایشیاءمیں توانائی کا بنیادی ذریعہ سمجھا جاتا ہے جبکہ ”ایل این جی“ ایک ایسی گیس ہے جسے ٹھنڈا کر کے مائع حالت میں تبدیل کر دیا جاتا ہے تاکہ ٹینکروں میں بھر کر بیرون ملک بھجوایا جاسکے‘ جاپان، جنوبی کوریا اور چین کا شمار ”ایل این جی“ کے سب سے بڑے خریداروں میں ہوتا ہے‘ اور اب پاکستان میں بھی ایل این جی کی گنجائش پیدا کرنے کےلئے قدرتی گیس کو گاڑیوں کی فلنگ کےلئے ختم کرنے کا عندیہ دیا جارہا ہے‘بعض عالمی ماہرین کی رائے میں تیل کی قیمتوں میں کمی کم از کم تین سے پانچ سال رہ سکتی ہے۔
اس تناظر میں پوری دنیا میں کئی طرح کی معاشی تبدیلیاں رونما ہوں گی‘-1ترقی پذیر ممالک کو سستا تیل اور انرجی کے سستے وسائل مہیا ہوں گے، جن سے ان کی معیشت کو سنبھالا ملے گا‘-2تیل کے متبادل وسائل مثلاً ”ایل این جی“ اور قدرتی گیس کی قیمتوں میں بھی کمی واقع ہوگی اور ان وسائل کے ذریعے عالمی سطح پر کاروبار ترقی پائے گا‘ -3روس، عرب ممالک اور امریکہ جو تیل پیدا کرنے والے ممالک ہیں‘ وہ اپنا خسارہ پورا کرنے کےلئے تیل کی پیداوار بڑھانے سمیت انرجی کے متبادل کاروبار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی کوشش کریں گے اور جن ممالک میں انرجی فیول کی کھپت ممکن ہے وہاں اب عالمی سیاست کے نظارے نظر آئیں گے‘ یہ بات طے ہے کہ پوری دنیا میں انرجی کے نت نئے طریقے دریافت ہو رہے ہیں اور پوری دنیا کی حکومتیں سستے ترین انرجی کے منصوبے لگا کر اپنی اپنی عوام کو اس کے ثمرات پہنچا رہی ہیں‘ لیکن پاکستان میں ایسا ہوتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا ‘ مارشل لاءحکومت ہو یا جمہوری حکومت، عوامی فلاحی منصوبے نہ ہونے کے برابر ہیں اور انرجی سے متعلق جتنے بھی منصوبے گزشتہ 20سال سے سننے میں آرہے ہیں‘ حقیقت میں یہ تمام منصوبے زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ نہیں۔