مغربی دنیا کے بیشتر ممالک میں غلامی کی تاریخ بہت پرانی ہے صدیوں سے غلام رہنے والے لوگ رنگت میں کالے ہیں لیکن ان کے خون کا رنگ سرخ ہے اور ان کے دل نرم و نازک ہیں۔ زندگی کے ان ادوار میں بھی جب اونچی جگہوں پر کھڑا کرتے ان کے گورے چٹے رنگت رکھنے والے آقا ان کی بولی لگاتے تھے ان کے لمبے جسم اور مضبوط قد وقامت کو ہاتھوں سے دکھا دکھا کر زیادہ دام وصول کرنے کیلئے لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرواتے تھے اس وقت بھی ان کالی رنگت کے لوگوں کی آنکھوں میں آنسو اور دل میں نفرت کے لاوے پھوٹتے تھے۔ وہ وقت کتنا ظالم ہوتا تھا جب ایک ہی خاندان کو مختلف گوروں میں بیچ دیا جاتا تھا۔ ماں، بیٹی، بیٹا، باپ سب مختلف آقاﺅں کے گھروں کھیتوں میں کام کرنے کیلئے فروخت کر دئیے جاتے تھے حتیٰ کہ شیر خوار بچے بھی ماں کی گود سے چھین لئے جاتے تھے۔ تاریخ خاموش ہے کہ آخر ان بچوں کو قتل کر دیا جاتا تھا یا وہ خود ہی ناتوانی کے ہاتھوں اپنی موت آپ مر جاتے تھے۔ صدیاں گزرتی گئیں۔ گوروں کو کبھی کالوں پر ترس نہ آیا۔ ان کی زندگیاں ایسی مجبور اور افلاس زدہ تھیں کہ افریقہ کی نسلیں تک بیماریوں اور غربت میں ختم ہوگئیں۔ نہ کسی کو شرم آئی نہ انسانیت کی آنکھ کھلی۔ نہ تہذیب نے انگڑائی لی۔ نہ تعلیم و تربیت نے گوروں کی آنے والی نسلوں میں کوئی تبدیلی پیدا کی۔ اور یہ نفرتیں اور یہ خرید و فروخت جاری و ساری رہی۔ وقت نے دیکھا افریقہ کے کئی رہنماﺅں نے ساری عمر کی قید و بند کی سزائیں برداشت کیں۔ نیلسن منڈیلا نے 26 سال جیل میں گزارے کیوں کہ وہ اپنے جیسے لوگوں کو اور غلاموں کو گوروں سے نجات دلانا چاہتے تھے۔ مارٹن لوتھر نے اپنے خوابوں کو تعبیر بنتے کبھی نہیں دیکھا۔ سینے پر گولی کھا کر غلام ہی رہ کر منوں مٹی تلے دفن ہوگیا لیکن اس کی تحریک میں زور تھا۔
کئی صدیوں بعد گورے اس بات پر مجبور ہوئے کہ اب کالے لوگ ان کے قابو میں نہیں ہیں۔ ہم نے ان کو آزاد کرنے کے سوا کچھ حاصل نہیں کرنا۔ ان کو اپنی جان کا خطرہ لاحق تھا۔ مارٹن لوتھر نے خواب دیکھا تھا کہ ایک وقت ایسا ضرور آئے گا جب گورے کالے بچے ایک ہی سکول میں تعلیم حاصل کریں گے اور ایک ہی پارک میں ایک جیسے جھولوں پر کھیلا کریں گے۔ وہ آپس میں دوست ہوں گے۔ ایک ہی جیسی دوکان سے اشیاءضروریہ خریدیں گے اور ایک ہی محلے میں رہ سکیں گے۔ مارٹن لوتھر کے زمانے تک تو کالے اور گوروں کی رہنے کی جگہیں گلیاں اور محلے الگ تھے۔ ان کو گوروں کی گلی کے سامنے سے گزرنے کی بھی اجازت نہ تھی۔ کالوں کے سکول الگ تھے۔ کالوںکی خوراک الگ تھیں۔ دوکانیں جہاں سے وہ اشیائے ضرورت خریدتے تھے۔ وہ بھی الگ تھیں۔ عبادت خانے اور قبرستان بھی الگ تھے۔ لیکن زمانے نے دیکھا کہ ایسا ہوا کہ کالوں نے وقت کے ساتھ آزادی حاصل کی۔ گورے اور کالے اکٹھے رہنے لگے اور ان کے بہت سے معاملات بھی اکٹھے ہوتے۔ کالوں کی آنے والی نسلوں نے اپنے ٹیلنٹ سے بڑا مقام حاصل کیا۔ بزنس میں مقام پایا۔ آرٹس کی دنیامیںنامور لوگ سامنے آئے۔ فلم اور میڈیا کی دنیا میںنام کمایا۔ لیکن آج اکسویں صدی میں جب سب اچھا ہے۔ بظاہر سب ٹھیک ہے آج بھی کالا شخص پریشان ہے۔ اس کو شکایت ہے وہ دردمندی سے کہتا ہے بلیک لائیوز میٹرز (Black lives Matress) یعنی کالوں کی زندگی بھی اہمیت رکھتی ہے کیوںکہ وہ غلامی جو سر عام بکتی تھی اب وہی غلامی دل میں‘ آنکھوں میں اور ذہن میں چھپ کر حملے کررہی ہے۔ بظاہر تو کالوں کو قانون نے حقوق دے دئیے ہیں۔
آزاد کر دیا ہے لیکن گوروں کے دل نے آزاد نہیں کیا۔ ان کی آنکھوں نے آزاد نہیں مانا اور ذہن نے بھی غلام ہی رکھا ہوا ہے۔ یہ وہ ساری باتیں ہیں اور سارے محسوسات جو مغرب کے کالے اپنے دل پر محسوس کرتے ہیں© اور گوروں کی تعصب بھری حرکتوں سے اپنے دل پر محسوس کرتے ہیں۔ کوئی کالا خاندان کتنا ہی مہذب پڑھا لکھا اور امیر ترین کیوں نہ ہوں گوروں کو وہ غیر مہذب، جاہل اور مفلسی کی تصویر نظر آتا ہے اور وہ ان پر طنز کے وار کرکے خوش ہوتے ہیں یہ طنز، تشنیع اور رویہ غیر محسوس ہوتاہے۔ اور کوئی کالا اگر پولیس کے ہتھے چڑھ جائے تو وہ قتل کرنے سے کم پر راضی نہیں ہوتے۔ اس کی وجہ گورے کے خون میں دوڑتے ہوئے وہ جینز ہیں جو گوروں کے آباﺅ اجداد نے اپنے غلاموں کے لئے اپنی آنے والی نسلوں میں منتقل کئے ہیں۔ اگرچہ یہاں کسی بھی نسل کے انسان کے ساتھ غیر انسانی سلوک کو قانون کا تحفظ حاصل ہے اور قانون اس کی ہرگز اجازت نہیں دیتا لیکن بدن بولی (Body Language) پر کوئی قدغن یا قانون لاگو نہیں ہوتا۔ کینیڈا کے قوانین بھی اس تحفظ کو بقا دئیے ہیں لیکن یہاں بھی آج تک ایسے رواج موجود ہیں جو نسل پرستی کو تقویت دیتے ہیں۔ اگرچہ کینیڈا ملٹی کلچرل ملک ہے اور دنیا کی ہر قوم‘ ہر زبان اور ہر رنگ ونسل کے لوگ یہاں موجود ہیں لیکن میں حیران ہوتی ہوں کہ ان قومیت کے لوگوں کے آپس میں تعلقات نہ ہونے کے برابر ہیں عبادت گاہوں میں شاپنگ سینٹرز میں ہسپتالوں میں ہیلو ہائے گڈ مارننگ، ہاﺅ آر یو، وغیرہ کے استقبالیہ اور دعائیہ جملوں کے تبادلے تو ضرور ہوتے ہیں لیکن دلوں میں یہ خواہش کسی کے بھی کبھی نہیں ہوتی کہ قریبی تعلقات رکھے جائیں۔ ہر زبان اور ہر قوم کے لوگ اپنی رنگ اور نسل کے لوگوں میں ہی رہ کر خوشی محسوس کرتے ہیں ایک ہی گلی میں50 گھر ہیں تو یوں سمجھ لیں کہ پچاس اجنبی لوگ ایک گلی میں رہتے ہیں اور دیوار کے ساتھ ایک ایسا اجنبی ہمسایہ ہے جس کو ہم روز دیکھتے ہیں۔ہیلو بھی کرتے ہیں۔
اس کا گھر اور گاڑی کے ماڈل کے بارے میں تو جانتے ہیں پر یہ معلوم نہیں اس کا نام کیا ہے اور اس کا وطن کیا ہے۔ چند دن پہلے ایک بیمار پاکستانی شخص کے گھر والوں نے خود فون کرکے پیرا میڈیکس کو بلایا کہ ان کا 65 سالہ بیمار باپ اور شوہر دوائی کھانے سے مسلسل کئی دن سے انکار کر رہا ہے۔ بیماری اتنی زیادہ ہے کہ دماغ بھی کام نہیں کر رہا ہے۔ ٹانگوں سے بھی معذور ہے اگر اٹھتا ہے تو گر جاتا ہے۔ فروٹ کی چھری ہاتھ میں ہے کہ میرے قریب کوئی نہ آئے‘جس پرپیرامیڈیکس نے پولیس بلائی ‘ قریب رہنے والے بھائی بھتیجا اور دوست احباب بھی جمع ہوگئے۔ پولیس کی منت زاری کرنے لگے کہ وہ بیمار 65 سال کا بوڑھا انگریزی کا ایک لفظ نہیں جانتا۔ ہمیں اندر جانے دو ہم وہ فروٹ کی چھری اس کے ہاتھ سے لے کر اس کو نارمل کرسکتے ہیں۔ لیکن انگریز پولیس نہ مانی‘ دروازہ توڑ کر اندر گھس گئی اور اندھا دھند فائرنگ کرکے بیمار شخص کو مار دیا۔ چھوٹی سی چھری حیران پریشان ہوگئی گولیوں کا مقابلہ نہ کرسکی اور زندگی خاموش ہوگئی۔ قانون کتابوں میں موجود ہے لیکن حفاظت کرنے والوں نے اس کی عزت نہیں کی۔ تعصب صرف کالے رنگ والوں سے نہیں ہے بلکہ جب آپ غیروں کے ملک میں مستقل ڈیرے ڈال لیتے ہیں تو ایسے واقعات ہوتے ہیں اور لائق قابل ڈاکٹر انجینئر اپنا ملک کیوں چھوڑ دیتے ہیں یہ ہمارے ملک کے رہنماﺅں کے سوچنے کیلئے بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔
مغرب میں کالے رنگ کے لوگوں کو ان کا کربناک ماضی چین نہیں لینے دیتا اور وہ آج تک اپنے آپ کو غلام ہی سمجھتے ہیں ‘البتہ گود میں جوان ہونے والی نئی نسل دو رنگ کی ہے۔ گھر میں دیسی اور باہر انگریزی اور میرے خیال میں ان کی زندگی زیادہ دردناک ہے۔ وہ کونسی تہذیب اختیار کریں وہ کون سی راہ اختیار کریں تاکہ تمام دائروں میں اپنے آپ کو کامیاب کرلیں۔ ہجرت کی راہیں اس وقت فکرمندی میںمبتلا کردیتی ہیں جب آپ ایسے وطن کی راہ لیتے ہیں جہاں کوئی رنگ بھی تو آپ کے رنگ کے ساتھ جڑتا ہوا نظر نہیں آتا۔ لیکن آج میں مغرب میں ایسے لاکھوں لوگوں کو کامیاب بھی دیکھتی ہوں کہ وہ متوازن زندگی کا رستہ چن لیتے ہیں۔ لباس مغربی، کھانا دیسی، عبادت اپنی اپنی، دماغ مغربی دل دیسی اور بدیسی دونوںہی قابل قبول۔ دوست یار بھی ہر طبقے کے جب اپنے ملکوں میں ترقی اور پھلنے پھولنے کے مواقع نہ ملیں تو وہ ایسی بیلوں کی طرح بن جاتے ہیں جو ہمسایوں کی دیواروں پر چڑھ جاتی ہیں اور جن کو پھول دینے کیلئے پھل دینے کیلئے بہر صورت پھیلنا ہوتا ہے۔