وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد حسین چوہدری تو اپنے سائنسی کیلنڈرکے حوالے سے کہہ چکے ہیں کہ عیدالاضحی 31جولائی کو ہوگی تاہم ہم سب کو مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے اجلاس کا منتظر رہنا ہوگا جس میں ذوالحج کے چاند کی اطلاع دی جائے گی‘یہ اجلاس 29ذیقعد کو ہوگا ، بہرحال عیدالاضحی بھی بڑا اسلامی تہوار ہے‘ کورونا وباءکی وجہ سے عیدالفطر تو بہت ہی سادگی سے گزر گئی تھی لیکن عیدالاضحی پر چونکہ قربانی ہوتی ہے اس لئے اس بارے میں انداز فکر تھوڑا مختلف ہے اور حکومت مویشی منڈیاں لگانے کی بھی اجازت دے رہی ہے‘ کورونا کے باعث اس سال حج روایت کے مطابق نہیں ہو رہا، سعودی حکومت نے صرف دس ہزار مقامی افراد کو حج کی اجازت دی ہے‘یوں منیٰ میں قربانی لاکھوں کی تعداد میں کم ہوگی‘ یہاں پاکستان میں صورت حال مختلف ہے، اگرچہ ابھی کورونا موجود ہے اور ہمیں اس کو مدنظر رکھنا چاہیے، حکومت نے بہرحال ایس او پیز کے تحت اجازت کا فیصلہ کیا اور ہر ضلع کی انتظامیہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے اپنے اضلاع میں مویشیاں منڈیاں لگانے کی اجازت دے لیکن یہ منڈیاں شہروں سے دور کھلی جگہوں پر ہوں اور حفاظتی اقدامات کا پورا پورا خیال رکھا جائے‘علمائے کرام نے زیادہ سے زیادہ اجتماعی قربانی کی ہدایت کر دی اور کئی تنظیمیں آن لائن قربانی کی تجویز لے کر آ گئی ہیں‘سوال یہ ہے کہ مویشی منڈیاں لگ گئیں تو سماجی فاصلے کا کیا ہوگا؟ اور جو شہری قربانی کے لئے جانور خریدیں گے وہ ذبح کہاں کریں گے‘سابقہ روایات کے مطابق گھروں پر قربانی بہت زیادہ خطرے کا باعث ہو گی‘ ابھی سے ان پہلوں پر غور ہونا چاہیے۔
‘کورونا وبا ءکے پیش نظر مویشی منڈیوں سے رجوع کرنے والوں کے لئے احتیاطی تدابیر‘ہدایات اور سماجی دوری برقرار رکھنے کے لئے قواعد وضوابط پر اگر عمل کیا جائے تو مویشی منڈی جانے اور قربانی کے لئے جانور کی خریداری میں کوئی حرج نہیں ‘ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں مویشی منڈیوں کے ساتھ ساتھ مویشیوںکے چارے اور آرائشی اشیاءکے سٹال سج گئے ہیں‘مویشی منڈیوں میں شہریوں کی بڑی تعداد اپنے من پسند جانورکی تلاش میں مصروف دکھائی دے رہی ہے‘بیوپاری اپنے مویشی ٹرکوں میں بھر کر مویشی منڈیوں کا رخ کر رہے ہیں‘مویشی منڈی میں نئے قوانین نے بیوپاریوں کو دن میں تارے دکھادیئے ہیں۔بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث مویشیوں کی قیمتوں میں بھی بے تحاشااضافہ دیکھا جا رہا ہے جس کے باعث شہریوں کے لئے سنت ابراہیمی کی ادائیگی مشکل ہو گئی ہے اور اجتماعی قربانی کا رجحان پروان چڑھ رہا ہے‘پاکستان میں عیدالاضحی پر ایک اندازے کے مطابق 4کھرب روپے سے زیادہ کے مویشیوں کا کاروبار ہوتا ہے،تقریباً 23ارب روپے قصائی مزدوری کے طور پر کماتے ہیں‘3ارب روپے سے زیادہ چارے کے کاروبار والے کماتے ہیں‘مختلف اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ برس پاکستان میں ڈیڑھ کروڑ سے زائد جانوروں کی قربانی کی گئی جس میں35لاکھ گائے بیل‘55لاکھ دنبے وبکرے اور80ہزار کے قریب اونٹ قربان کئے گئے۔
سب سے بڑا کاروبار عید پر ہوتا ہے‘نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ غریبوں کو مزدوری ملتی ہے،کسانوں کا چارہ فروخت ہوتا ہے‘دیہاتیوں کو مویشیوں کی اچھی قیمت ملتی ہے‘اربوں روپے گاڑیوںاور ٹرکوں میں جانور لانے لے جانے والے کماتے ہیں‘بعد ازاں غریبوں کو کھانے کے لیے مہنگا گوشت مفت میں ملتا ہے‘کھالیں کئی سو ارب روپے میں فروخت ہوتی ہیں،چمڑے کی فیکٹریوں میں کام کرنے والوںکو مزید کام ملتا ہے،یہ سب پیسہ جس جس نے کمایا ہے وہ اپنی ضروریات پر جب خرچ کرتے ہیں تو نہ جانے کتنے کھرب کا کاروباردوبارہ ہوتا ہے‘یہ قربانی غریب کو صرف گوشت نہیں کھلاتی ،بلکہ آئندہ سارا سال غریبوں کے روزگار اور مزدوری کا بھی بندوبست ہوتا ہے‘دوسری جانب ملک میں آن لائن مویشیو ں کی خریداری کے رجحان میں بھی مسلسل اضافہ دیکھاجا رہاہے،انٹرنیٹ کے ذریعے قربانی کے جانور کی فروخت اور آن لائن قربانی کا رجحان بڑھ رہا ہے‘روایتی طریقے میں مویشی منڈی کا رخ کر کے اپنی پسند کی گائے‘بکرے‘دنبے اور اونٹ کا انتخاب ایک مشکل عمل ہے تاہم انٹر نیٹ نے اب یہ مشکل بھی آسان بنا دی ہے اور قربانی کا فریضہ ادا کرنے والے گھر بیٹھے ہی جانور خرید سکتے ہیں۔