اسٹینفورڈ: درد اور دیرینہ تکلیف اب ہمارے جسم کا حصہ بن چکی ہے لیکن اب امیجنگ کی ایک نئی ٹیکنالوجی کے ذریعے جسم میں کئی سالوں سے پلنے والے درد کے درست مقام اور اس کی شدت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
اس کی تفصیلات نیوکلیئر میڈیسن اور مالیکیولر امیجنگ 2020 کی مجازی کانفرنس میں پیش کی گئی ہے۔ اس میں ایم آر آئی اور پوزیٹران ایمیشن ٹوموگرافی ( پی ای ٹٰی) کے ملاپ اور جدت پر مبنی ایک اسکینر کی روداد پیش کی گئی ہے جسے ایکسپلورر کا نام دیا گیا ہے۔ پورے جسم کا یہ اسکینر ہر اس مقام کو تصویر میں ظاہر کرتا ہے جہاں جلن ، درد یا سوزش ہوسکتی ہے۔ پہلی مرتبہ یہ جوڑوں اور گٹھیا کے درد کی تصویر بھی دکھاتا ہے۔
پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی لاکھوں افراد کسی نہ درد کی شدت میں گرفتار ہیں اور اب تک صرف چند آلات ہی ہیں جو ہمارے جسم میں درد کی ٹھیک نشاندہی کرسکتے ہیں اور وہ بھی ایک حد تک۔ لیکن اب اسٹینفرڈ یونیورسٹی اسکول آف میڈیسن کے سائنسدانوں نے پی ای ٹی اور ایم آر آئی طریقہ کار کے تحت اس عمل کو انجام دیا ہے۔
اس منصوبے پر کام کرنے والے ماہر ڈاکٹر سندیپ بِسوال کہتے ہیں کہ اگرچہ درد کی نشاندہی کرنے والی کچھ ٹیکنالوجی موجود ہیں لیکن پی ای ٹی اور ایم آر آئی پر مبنی یہ نیا اسکینر خاص قسم کے ٹریسر استعمال کرتا ہے۔ ابتدائی طور پر 65 افراد کے درد کا جائزہ لیا گیا۔ معلوم ہوا کہ جہاں درد ہوتا ہے اس مقام پر بافتوں اور ٹشوز میں گلوکوز ذیادہ جذب ہوجاتا ہے۔ اس طرح سے 58 مریضوں میں انتہائی درست انداز میں تکلیف کا مقام معلوم کرلیا گیا۔
ایک ایسا مریض بھی تھا جس کی گردن میں کئی برسوں سے تکلیف تھی اور ہر طرح کا علاج ناکام ثابت ہوا تھا۔ اسکینر کی مدد سے اس کی گردن کے عین اسی مقام کو دیکھا گیا جہاں درد پیدا ہورہا تھا۔ اس کے بعد سرجن نے عین اسی مقام کا علاج کیا اور مریض کو سکون آگیا۔ اس طرح ایکسپلورر نامی یہ اسکینر درد کے علاج اور سرجری میں انقلاب ثابت ہوسکتا ہے۔