افریقہ کے رہنے والے وہ باشندے جن پر صدیوں تک سفید یا گورے لوگوں نے حکومتیں کیں۔ انیسویں صدی میں بالآخر بظاہر آزاد ہوگئے اور اپنی زندگیاں بھی اپنی مرضی سے گزارنے لگے۔ ان غلاموں کی آنے والی نسلیں، بچے، پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں اس طرح مشکلات کا شکار نہیں ہوئے جس طرح کچھ دہائیاں پہلے تک ان کے خون کے رشتے ان میں مبتلا تھے۔ لیکن آزاد ہونے کے باوجود وہ تعصب اور نفرت کے ایک ایسے کنوئیں میں جاگرے جہاں وہ الفاظ میں تو آزاد ہیں۔ نقل و حرکت میں آزاد ہیں لیکن جن گورے لوگوں کے ساتھ وہ رہتے ہیں اور اپنی زندگیوں کے ساتھ جڑی ہوئی ہزاروں ضرورتیں ان گوروں کے بغیر پوری نہیں کرسکتے۔ وہ گورے انہیں اپنی بدن بولی پکار پکار کر غلام کہتے ہیں۔ کالے لوگ تلملا اٹھتے ہیں کہ جو الفاظ آنکھیں بولتی ہیں زبان کیوں نہیں بولتی اور جو الفاظ دل دماغ کے ذریعے ہاتھوں اور آنکھوں میں آجاتے ہیں اس پر زبان کیوں خاموش ہے کیوں کہ زبان کچھ بولے گی تو قانون حرکت میں آئے گا۔ آج جو کہانی میں آپ کو سنانے چلی ہوں وہ لیلیٰ محمد کی کہانی ہے۔ لیلیٰ محمد کینیڈا کے ایک مشہور پبلک سکول کی طالبہ رہ چکی ہے۔ وہ اپنے طالب علمی کے زمانے سے تعصب، نفرت اور بدن بولی کی حقارت کا شکار رہی ہے کیوں کہ اس کا تعلق بھی افریقہ کی ان نسلوں سے ہے جن کے آباﺅ اجداد گوروں کے غلام تھے، اگرچہ اب کالے گورے سرخ زرد تمام بچوں کا سکول ایک ہے۔ ایک ہی استاد ان کو پڑھاتا ہے۔
کلاس روم ایک ہے اور نصاب بھی ایک ہی ہے لیکن لیلیٰ محمد اور اس کی سکول فیلوز افریقن لڑکیوں کوکچھ زیادہ ہی ذلت کا سامنا کرنا پڑا۔ لیلیٰ محمد نے روزٹریڈیشنل سکول میںتعلیم حاصل کی۔ انسان دنیا میںکہیں بھی چلا جائے سکول کی یادیں ان مٹ نقوش ہوتے ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ شوریدہ سر ہوجاتے ہیں آج 2020 میں جب مغرب کے تمام ممالک میں سیاہ فام اپنی زندگیوں کو اہمیت دینے کیلئے زبردست انقلابی تحریک چلا رہے ہیںخاص طورپر پولیس کے ہاتھوں ناروا سلوک اور قتل عام جیسے اقدامات کی مذمت میں سڑکوں پر بیٹھے ہیں۔ لیلیٰ محمد 2007 میں گزار ہوئے سکول کے دنوں کو یاد کررہی ہے۔ وہ اپنے سکول کے ایک میگزین کو سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہوئے لکھتی ہے کہ میں نے اپنے سکول میں تین سال پڑھائی کی میں بہت کم عمر اور شرمیلی تھی۔ میری کالی رنگت بھی میری پریشانی اور دوسروں سے دور دور رہنے کی ایک بڑی وجہ تھی لیکن اپنے سکول میں ہونے والے واقعات کی میں چشم دید گواہ بھی ہوں لیلیٰ محمد لکھتی ہے کہ ہمارے سکول میں سپرٹ ویک spirit week منایا جاتا تھا۔ جس میں طالبات کو بہت سی دنیاوی خوبیوں سے مالا مال کرنے کیلئے ایک خاص ہفتہ رکھا جاتا تھا اور ان میں مختلف صلاحیتیں پروان چڑھانے اور ان کو سکھانے کی غرض سے طالبات کو مختلف فرائض دئیے جاتے تھے اور یہ ہفتہ باقاعدگی سے ہر سال منایا جاتا تھا۔ ان ہی خوبیوں میں ایک خوبی سکول کیلئے فنڈز کو اکٹھا کرنا ہوتا تھا اور سکول کی کالی رنگت کی بچیوں کو سٹیج پر غلام کے طورپر ایک دن کیلئے بیچا جاتا تھا۔ اس مقصد کیلئے ان کالی نسل کی لڑکیوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی کہ ان پر بولی لگائے جانے سے سکول کو فنڈز ملیںگے۔ سکول کا زمانہ اتنا معصوم ہوتا ہے کہ وہ لڑکیاں بکنے کیلئے تیار ہوجاتی تھیں۔ اس مقصد کیلئے جمنازیم میں پورا سکول جمع ہوجاتا تھا اور باری باری سٹیج پر کالی لڑکیاں برائے فروخت پیش کی جاتی تھیں۔
بس فرق یہ تھا کہ خریدار صرف ٹیچرز ہوتے تھے۔ یعنی ٹیچرز ہی کچھ سو ڈالر دیکر وہ غلام لڑکی خرید لیتے تھے۔ لیلیٰ محمد لکھتی ہے کہ آج بھی جب میں 2007 کا سکول میگزین دیکھتی ہوں تو یہ واقعات میری یادوں میں تازہ ہوجاتے ہیں۔ جب کالی رنگت کی لڑکی فروخت ہوجاتی تھی تو وہ فنڈ سکول کے کھاتے میں چلا جاتا تھا۔ جس ٹیچرنے وہ غلام لڑکی خریدی ہوتی وہ ایک زنجیر لے کر کالی لڑکی کے گلے میںڈال دیتی تھی۔ لیلیٰ محمد کہتی ہے کہ مجھے یاد ہے کہ ایک غلام لڑکی جس کے گلے میں زنجیر تھی ایک استانی نے اس زنجیر کو پکڑا ہوا تھا اور تمام سکول کے سٹوڈنٹس کے سامنے اس کو پریڈ کروا رہی تھی اس غلام لڑکی نے گلے میں کتے کی زنجیر پہنی ہوئی تھی جو طالبہ ٹیچر پر بیچ دی جاتی تھی وہ اس ٹیچر کا کام کرنے پر مجبور ہوتی تھی۔ لیلیٰ محمد کہتی ہے کہ میں خود اس وقت عمر کے اس حصے میں نہیں تھی کہ کچھ سمجھ سکتی اور مجھے ٹیچرز سے ڈر بھی لگتا تھا لیکن آج 2020 میں پیچھے مڑکر ماضی میں دیکھتی ہوں تو یاد آتا ہے کہ میں بھی تو کالی ہوں اور ہمارے آباﺅ اجداد غلام تھے اور یہ تاریخ کی حقیقت ہے میں آج بھی اس بات کو لے کر اتنی زیادہ حساس ہوں کہ دوست نہیں بناسکتی۔ میں نے اپنے باپ کو اب اپنے سکول کے ان واقعات کے بارے میں بتایا کہ تو بہت پریشان ہوگیا اس نے کہا تمہیں کچھ کہنا چاہئے تھا لیکن میں نے انکار کر دیا کیوں کہ میں نہیں چاہتی تھی کہ لوگ مجھ سے نفرت کریں لیکن آج کئی سال گزرنے کے بعد میں چاہتی ہوں کہ میرا سکول ان درد ناک واقعات کی ذمہ داری قبول کرے اور عوام میں آکر ان کی انتظامیہ معافی مانگے تاکہ کم سن طالبات بچیاں ان کے عذاب سے آج محفوظ ہوسکیں۔ شمالی امریکہ میں خاص طورپر جب کالوں کی یہ تحریک چلی تو لیلیٰ محمد کی طرح اس کے سکول کی کئی طالبات سوشل میڈیا پر سامنے آئیں اور دل ہلا دینے والے سکول کے زمانوں کے واقعات سنائے۔ ایسی لڑکیاں بھی سامنے آئیں جو کتے کی طرح زنجیریں پہن کر فروخت ہوئی تھیں اور پھر سکول کی انتظامیہ کے ہاتھ پاﺅں کانپنے لگے۔
فوراً ہی میڈیا پر سامنے آکر اپنے ظالمانہ رویوں کی معافی مانگ لی اور کہا کہ ہم نے ماضی میں بہت سی غلطیاں کیں اور وہ سب اس وقت بھی غلط تھا آج بھی غلط ہے اور مغرب میں گوری انتظامیہ معافی کے قابل بھی ٹہرائی جاتی اور سزاﺅں سے مبرا ہوتی اس کی وجہ حکومت کی مشینری ہے جوگوروں پر مشتمل ہے۔ لیلیٰ محمد کی ایک سکول فیلو امینیڈا کری لنک ان ہی متاثرہ طالبات میںشامل تھی۔ وہ بھی اپنی یادیںبیان کرتی ہوئی لکھتی ہے کہ میں نے ٹیچرز کے کہنے پر اپنے آپ کو فروخت کرنے کیلئے پیش کیا تھا اور مجھے بھی ایک ٹیچر نے صرف 10ڈالرمیں خرید لیا تھا۔ اس نے مجھے زنجیر پہنا کر پورے جمنازیم میں گھسیٹ کر چلنے پر مجبور کیا تھا۔ لیلیٰ محمد کہتی ہے کہ اس وقت کی میری سہیلیاں اور سکول کی تمام طالبات جانتی ہیں۔ کالی طالبات کی فروخت کا دن جشن کا دن ہوتا تھا۔ گوری لڑکیوں کی طرف سے خاص طورپر ایسی خوشی منائی جاتی تھی جیسے کھیلوں کا عالمی دن یا کوئی فیشن شو کا دن منایا جاتا ہے۔ طالبہ کو سٹیج پر کھڑا کرکے کالی لڑکی کے اوصاف بتائے جاتے۔ آکشنر یا بولی لگانے کی ذمہ داری سکول کی لیڈز طالبہ کی ہوتی تھی۔ لیلیٰ محمد کہتی ہے وہ توہین آمیز وقت یاد کرکے میری آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں وہ سمجھتی ہے کہ شاید آج2020 میں بھی یہ بولی لگانے کا جشن منایاجاتا ہو۔ اس لئے میں شدت سے چاہتی ہوں کہ سکول کی انتظامیہ اور حکومت کی انتظامیہ سامنے آئے اور معافی مانگے اور اقرار کرے کہ وہ معصوم طالبات کو کتنا دکھی کرتی تھیں۔ سکول کی انتظامیہ نے سرکاری طورپر معذرت نامہ شائع کروایا۔ لیکن قانون اندھا ہوتا ہے اور میرے اپنے خیال میں گونگا اور بہرہ اور لنگڑا بھی ہوتا ہے اور معذور زدہ قانون سے انصاف کی امید کیسی۔؟؟