ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے ایسے خطے سے نوازا جو قدرتی وسائل میں خود کفیل ہے اور ہم قدرتی وسائل میں اتنا مالا مال ہیں کہ اگر 73سالوں میں صرف قدرتی وسائل جن میں گیس، پانی، کوئلہ، معدنیات اور دیگر وسائل شامل ہیں پر ہی توجہ دی جاتی تو آج ہمیں کسی کے سامنے کشکول پھیلانے کی ضرورت نہ ہوتی، شومئی قسمت کہ آج تک ہمیں جو حکمران ملے انہوں نے ملکی وسائل میں اضافہ کےلئے اقدامات کرنے کی بجائے ان وسائل کو لوٹنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، یہی وجہ ہے کہ ہم آزادی کے 73سال بعدبھی اپنے پاﺅںپر کھڑے نہ ہوسکے، کیوں کہ ہم اپنے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کےلئے بھی سود درسود قرض لیتے ہیں، اس طرح ہم نے اپنی آنے والی نسلوں کو قرضوں کی زنجیروں میں جکڑ دیا ہے جو حکومت بھی آئی اقتدار میں شامل افراد نے قوم اور آنے والی نسلوں کی ترقی و خوشحالی کی بجائے ذاتی مفادات کو ترجیح دی اور اپنی ہی جیبیں بھریں ‘دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ کا فرنٹ لائن صوبہ ہونے کے ناطے صوبہ خیبرپختونخوا کے عوام اور یہاں کی بزنس کمیونٹی نے بڑی قربانیاں دی ہیں اور کوئی بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ یہاں کی بزنس کمیونٹی اور عوام بڑے حوصلہ کے ساتھ یہاں رہ رہے ہیں اور اپنا کاروبار چلا رہے ہیں‘دہشت گردی سے جہاں سکیورٹی خدشات میں اضافہ ہوا ہے وہاں بزنس کمیونٹی کی Cost of doing businessمیں بھی اضافہ ہوا ہے اور اس وجہ سے سرمائے کی منتقلی میں اضافہ ہوا ہے۔ یہاں کے سرمایہ کار اسلام آباد،لاہور، فیصل آباد اور ملک کے دیگرصوبوں میں شفٹ ہو رہے ہیں اور یہ حکومت کےلئے لمحہ فکریہ ہے‘انہی مشکلات کو دیکھتے ہوئے سابق حکومت نے ایک مالیاتی پیکج دیا تھا جس میں مختلف ٹیکسوں کی شرح میں کمی اور معافی کا اعلان کیا گیا تھا لیکن اس پیکج کے حقیقی ثمرات بزنس کمیونٹی اور خیبرپختونخوا کے عوام کو نہیں پہنچنے دئیے گئے‘ اس لئے صوبے کے عوام اور بزنس کمیونٹی کو ایک نیا مالیاتی پیکج ملنا چاہئے‘ پاکستانی ایکسپورٹ پر 0.25فیصد کے حساب سے ایکسپورٹ ڈویلپمنٹ سرچارج (EDS) وصول کیا جا رہا ہے جو تقریباً 40ارب روپے بنتا ہے‘ اس کثیر رقم میں صوبہ خیبرپختونخوا کا حصہ بھی نمایاں ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ EDSسے صوبہ خیبرپختونخوا میں انفراسٹرکچر کی بحالی اور دیگر ترقیاتی کاموں پر ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کیا جا رہا‘ اس فنڈ سے خیبرپختونخوا کےلئے کوئی بھی قابل ذکر کام نہیں ہوا جبکہ دیگر صوبوں میں اس فنڈ سے بزنس کمیونٹی کی سہولتوں کےلئے کافی قابل ذکر کام ہو چکے ہیں۔صوبہ خیبر پختونخوا صنعتی لحاظ سے ہمیشہ پسماندہ رہا ہے جس کی بنیادی وجہ سمندر سے دوری ہے‘ جغرافیائی لحاظ سے ہمیں افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں کی اس بڑی مارکیٹ سے ہماری انڈسٹری اور ٹریڈ کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا؛ پاکستان اور افغانستان کے مابین باہمی تجارت کے فروغ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ APTTA کا ایگریمنٹ (افغانستان پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ) ہے جس کی وجہ سے افغانستان اپنی مارکیٹ ہمارے لئے کھولنے سے ہچکچاتا ہے۔
‘ پاکستان امریکہ کے بعد افغانستان کےلئے ایک بڑا ایکسپورٹر ملک ہے لیکن تجارت میں مشکلات کے باعث ہم یہ مارکیٹ کھو رہے ہیں‘پاکستان اور افغانستان کے مابین افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے معاہدہ پر صوبہ خیبر پختونخوا کی بزنس کمیونٹی کے شدید تحفظات ہیں‘ پاکستان ریلوے کے بحران کی وجہ سے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ میں آنے والا 75فیصد مال ایران کے راستے بندرعباس شفٹ ہوگیا ہے‘ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے معاہدہ میں موجود خامیوں کو دور کیا جائے گا‘ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے معاہدہ میں موجود خامیوں کی وجہ سے افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ پاکستان کی تجارت میں مشکلات درپیش ہیں‘ وسطی ایشیائی ریاستیں پاکستانی مصنوعات کےلئے ایک وسیع منڈیاں ہیں۔ ان ریاستوں میں سیمنٹ، سبزیاں، فروٹ اور سرجیکل گڈز سمیت بہت سی اشیاءپاکستان سے بڑے پیمانے پر ایکسپورٹ ہوسکتی ہیں لیکن پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے معاہدہ میں مشکلات کی وجہ سے افغان حکومت بھی پاکستانی تاجروں کو سہولیات فراہم نہیں کررہی۔ حکومت پاکستان ریجنل ٹریڈ میں انڈیا کو MFNکا Statusدے رہی ہے تو پھر افغانستان کو بھی MFN Statusدیا جائے تاکہ افغانستان حکومت بھی پاکستانی تاجروں کو سہولیات فراہم کرے؛اس وقت پاکستان، افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک ازبکستان اور تاجکستان کے مابین کوئی ٹریڈ ایگریمنٹ موجودنہیں ہے جس کی وجہ سے پاکستانی ایکسپورٹرز ان ممالک میں موجود مارکیٹ کو حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں‘ فری ٹریڈ ایگریمنٹ نہ ہونے کی وجہ سے افغانی تاجر پاکستان سے مصنوعات ایکسپورٹ کرتے ہیں اور وسطی ایشیائی ریاستوں کو ری ایکسپورٹ کرتے ہیں اگر تجارتی معاہدے عمل میں لائے جائیں تو پاکستانی ایکسپورٹرز براہ راست وسطی ایشیائی ریاستوں کو ایکسپورٹ کر سکیں گے‘ جب تجارتی معاہدے ہونگے تو پھر تمام حکومتیں اس بات کی پابند ہونگی کہ وہ باہمی تجارت اور سہ ملکی تجارت کو فروغ دیں اور رکاوٹوں کو دور کریں‘پاکستان اوروسطی ایشیائی ریاستوں کے مابین 15بلین ڈالر کی ایکسپورٹ کی گنجائش موجود ہے جبکہ اس وقت افغانستان کے ساتھ تقریباً ڈھائی ارب ڈالر کی تجارت ہورہی ہے جو 5/6ارب ڈالر تک بڑھائی جاسکتی ہے‘دوسری جانب وفاقی حکومت نے افغانستان کےلئے پاکستانی ایکسپورٹ پاکستانی کرنسی میں کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے اور اب صرف ڈالرز میں ایکسپورٹ کی اجازت ہے‘حکومت نے پاکستان کے ہر بڑے شہر میں ایکسپورٹ پروسیسنگ زونز قائم کئے ہیں‘ رسالپور میں قائم ای پی زیڈ سے مینو فیکچررز کو لینڈ روٹ کے ذریعے افغانستان ایکسپورٹ کی اجازت حاصل نہیں ہے۔ ای پی زیڈ رسالپور کو denotifyکیا جائے اور اسے ریگولر انڈسٹریل اسٹیٹ کا درجہ دیا جائے تاکہ اس انڈسٹریل اسٹیٹ میں نئی صنعتیں قائم ہوں اور یہ انڈسٹریل اسٹیٹ دیگر انڈسٹریل اسٹیٹس کی طرح مکمل طور پر آپریشنل ہوسکے۔
‘جب علاقائی سطح پر ایکسپورٹ کی بات ہوتی ہے تو صوبہ خیبر پختونخوا کے ایکسپورٹرزکو بے شمار مشکلات کا سامنا ہے‘ پشاور ڈرائی پورٹ میں سہولیات کے فقدان سے ایکسپورٹ کا عمل بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ پشاور سے ایکسپورٹ ہونے والے مال بے پناہ مشکلات کے بعد پرائیویٹ ٹرکوں کے ذریعے کراچی لے جائے جاتے ہیں اور پھر کراچی سے ایکسپورٹ کئے جاتے ہیں‘ وفاقی وزیر ریلوے اور ایف بی آر اس سلسلے میں اپنا موثر کردار ادا کرے اور پشاور ڈرائی پورٹ میں ایکسپورٹرز کو سہولیات فراہم کی جائیں‘ اس اقدام سے پشاور ڈرائی پورٹ فعال ہوگا اورخیبر پختونخوا کے کاروباری لوگ بھی مستفید ہونگے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ایکسپورٹ کے فروغ کےلئے قائم ادارہ ٹی ڈی اے پی وہ نتائج سامنے نہیں لاسکا جس مقصد کےلئے اس ادارے کو قائم کیا گیا‘ پشاور میں ٹی ڈی اے پی آفس کی کارکردگی صفر ہے جبکہ یہ ادارہ ایکسپورٹرز کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتا‘ ٹی ڈی اے پی پشاور کے پاس ایکسپورٹ کا کوئی ڈیٹا دستیاب نہیں ہوتا اور نہ یہاں کی ایکسپورٹرز برادری کے مسائل حل کئے جاتے ہیں‘ایک لیزان کمیٹی تشکیل دی جائے جس میں وزارت تجارت اورسرحد چیمبر سمیت ملک کے دیگر چیمبرز کے نمائندے شامل ہوں اور اس کمیٹی کے پلیٹ فارم سے ایکسپورٹرز کے مسائل اور باہمی مشاورت سے ایکسپورٹ کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کی جانی چاہئے‘بیرون ممالک قائم پاکستانی سفارتخانے اور ہائی کمیشن پاکستانی مصنوعات کےلئے منڈیاں تلاش کرنے میں ناکام رہے ہیں اور اس مقصد کےلئے تعینات آفیسرز کی کارکردگی بھی غیر اطمینان بخش ہے‘ وزارت تجارت نے کمرشل اتاشیوں کو پاکستانی مصنوعات کےلئے غیر ملکی منڈیوں کی تلاش اور پہلے سے موجود منڈیوں تک مصنوعات کی رسائی کا ٹاسک دیا ہے لیکن اس عمل کی مانیٹرنگ نہ ہونے کی وجہ سے کمرشل قونصلرز اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام رہے ہیں‘ بیرون ممالک تعینات کمرشل قونصلرز کو خصوصی ٹاسک سونپے جائیں اور انہیں واضح ہدایات دی جائیں کہ وہ پاکستانی مصنوعات کے فروغ کےلئے بھرپور انداز میں کام کریں اور ان کی پروموشن کو کارکردگی سے مشروط کیا جائے اور جو کمرشل قونصلر ایکسپورٹ کے فروغ کے حوالے سے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرسکے تو اسے عہدے سے فوری طور پر ہٹا دینا چاہئے۔