جوں جوں عید الاضحی قریب آرہی ہے صوبائی دارالحکومت میں مہنگائی بڑھتی ہی جا رہی ہے جس کے باعث غریب عوام کا جینا مشکل ہوتا جا رہا ہے عید کی آمد سے تقریباً 20روز قبل ہی سبزی کی قیمتوں کو پر لگ گئے ہیں ٹماٹر اور پیاز کی قیمتیں سنچری عبور کر چکی ہیں جبکہ دیگر سبزیوں کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں جبکہ مرغی کی قیمتوں کو بھی پر لگ چکے ہیں حکومت کی جانب سے وقتاً فوقتاًمہنگائی کو کنٹرول کرنے کےلئے اقدامات تو کئے جاتے ہیں لیکن پھر بھی مہنگائی کا جن قابو میں نہیں آرہا جوکہ افسوسناک امر ہے حکومت کو چاہئے کہ وہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لئے بازاروں پر چھاپے مارے اور جو دکاندار بھی سرکاری نرخنامے سے تجاوز کرتے ہوئے اشیائے خوردونوش فروخت کرتے ہوئے پایا جائے اسے کڑی سزا دی جائے تاکہ آئندہ کوئی ایسا کرنے کا سوچے بھی نہیں ہم امید کرتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان جو کہ عوامی مشکلات کے حل کے لئے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں وہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لئے مزید اقدامات اٹھائیں گے اور غریب عوام کا جو سب سے بڑا مسئلہ ہے اسے حل کریں گے۔گزشتہ سال کے حوالہ سے اگر کہا جائے کہ مہنگائی کا سال تھا تو غلط نہ ہو گا،جبکہ اوسطاً ایک سال میں مہنگائی کی شرح ساڑھے 5فیصد سے ساڑھے 18فیصد تک پہنچ گئی۔وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق کھانے پینے کی21بنیادی اشیاءکی قیمتوں میں 17فیصد تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا،جس کے باعث ہفت روزہ بنیاد پر مہنگائی میں اضافے کی اوسط شرح18.5فیصد تک پہنچ گئی۔رپورٹ کے مطابق مارکیٹ میں کھانے پینے اور روزمرہ استعمال کی51بنیادی اشیاءمیں سے47اشیاءگزشتہ سال دسمبر کے مقابلے میں174فیصد تک مہنگی ہو چکی ہیں۔
ٹماٹر گزشتہ سال کے مقابلے میں174فیصد ،پیاز 151فیصد اور لہسن 118فیصد مہنگا فروخت ہوا،آلو کی قیمت 88 فیصد ،دال مونگ کی قیمت 66فیصد،دال ماش کی40فیصداور چینی کی قیمت ایک سال میں 28فیصد زیادہ ہو گئی ہے جو کسی صورت بھی ایک عام آدمی کے لئے قابل برداشت نہیں ہے۔پٹرولیم کی قیمتوں میں ہو شربا اضافہ پہلے سے پریشان حال عوام کو مزید بے حالی کے دلدل میں دھکیلنے کے مترادف ہے،پٹرولیم اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کا مطلب ہر ایک چیز کی قیمت میں کئی گنا اضافہ لیا جاتا ہے،اس سے صرف گاڑی رکھنے اور پٹرولیم مصنوعات استعمال کرنے والے ہی متاثر نہیں ہوتے۔سبزی سے لیکر ہر چھوٹی بڑی چیز کی ٹرانسپورٹیشن کا خرچ بڑھتاہے اور نتیجہ میں ان کی قیمتوں میں اضافہ یقینی ہے،جس سے وہ عام آدمی بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا جو پٹرولیم مصنوعات کبھی خریدتا ہی نہیں۔مہنگائی کی اس لہر سے عوامی سطح پر پریشانی میں اضافہ ہونا لازمی امر ہے اور پہلے سے کمزور قوت خرید رکھنے والے عوام کے لئے ضروریات زندگی کو پورا کرنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔عوام میں موجود بے چینی کی ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہی ہے،اگر اسے کنٹرول نہ کیا گیا تو خطرہ موجود ہے کہ حکومت اور حکومتی پارٹی کی مقبولیت کو شدید نقصان پہنچے اور اشیاءضروریہ کے عوامی پہنچ سے دور ہو جانے پر لوگوں کے ازخود سڑکوں پر نکل آنے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
مہنگائی کے طوفان نے عام آدمی کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے،ایک طرف کاروبار کرنے والے بھی پریشانی سے نہیں بچ سکے،کئی ادارے بند ہونے سے بیروزگاری نے عوام سے قوت خرید چھین لی ہے تو دوسری جانب اشیاءضروریہ کی قیمتیں اتنی زیادہ ہو چکی ہیں کہ دو وقت کی روٹی کا بندوبست بھی ممکن نہیں‘ حکومت کو چاہئے کہ وہ مہنگائی میں کمی کو اپنی ترجیح بنائے۔معیشت میں بہتری کے جو دعوے سامنے آرہے ہیںان کا فائدہ عوام کو اسی صورت ہو سکے گا کہ انہیں روزگار میسر ہوا اور مہنگائی کم ہو ۔مہنگائی میں کمی کی خاطر اگر مجسٹریسی نظام دوبارہ لانے کی ضرورت ہے تو اس سے بھی دریغ نہیں کرنا چاہئے۔جبکہ حکومت بار بار مجسٹریسی نظام لانے کا کہہ رہی ہے پھر کیا وجہ ہے کہ اب تک حکومت اس میں بُری طرح نا کامیاب ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ مجسٹریسی نظام کو ماضی کی طرح فعال کیا جائے۔ حکومت کواقتدار میں آئے دو سال سے زائدکا عرصہ ہو گیا ہے ہر چیز کی قیمتیں کم ہونے کی بجائے بڑھتی جا رہی ہیں۔