پاک افغان ٹرانزٹ معاہدہ میںمشکلات

گزشتہ روز وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان نے افغانستان کے ساتھ باہمی تجارت کے فروغ کے لئے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کی اور کہا کہ افغانستان کے ساتھ باہمی تجارت اور ٹرانزٹ ٹریڈ سے متعلق جملہ امور کو اسٹریم لائن کرنے کے لئے صوبائی حکومت متعلقہ وفاقی محکموں ‘ اداروں ودیگر شراکت داروں کے مابین کوارڈی نیشن کاایک موثر میکنزم تیار کرے گی اور اس راہ میں حائل رکاوٹوں کو مستقل بنیادوں پر دور کرنے کے لئے تمام متعلقہ اداروں کو مل بیٹھ کر ایک طویل المدتی پالیسی مرتب کرنا ہو گی جبکہ وزیر اعظم کے معاون خصوصی ارباب شہزاد کی قیادت میں پاک افغان پارلیمنٹری فرینڈشپ گروپ کی ایگزیکٹو کمیٹی نے پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے علاوہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان باہمی تجارت کے فروغ کے سلسلے میں طورخم بارڈر کا دورہ کیا جس میں افغانستان کے لئے نمائندہ خصوصی محمد صادق (سابق سفیرپاکستان برائے افغانستان کابل)صوبائی وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا، انسپکٹر جنرل فرنٹیئر کور میجر جنرل راحت سلیم،انسپکٹر جنرل پولیس خیبرپختونخواثناءاللہ عباسی ،چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا،وفاقی سیکرٹری داخلہ،سیکرٹری تجارت صالح احمد فاروقی،سیکرٹری خارجہ،چیئرمین ایف بی آر،ممبر آپریشن ایف بی آرطارق ہدیٰ،کلکٹر کسٹمز آپریزمنٹ محمد سلیم ، کلکٹر کسٹمز پریونٹیوخلیل یوسفانی،ڈائریکٹر ٹرانزٹ ٹریڈ امجد رحمان ،ڈائریکٹر بارڈر ٹرمینل این ایل سی بریگیڈیئر (ر) محمد عابد،جی ایم کرنل عزیز خٹک،ڈی جی ایف آئی اے، اے سی سی پی اومحمد علی گنڈا پور، ڈی پی او ڈاکٹر اقبال ودیگر سرکاری افسران شامل تھے‘اس دورے کابنیادی مقصد پاک افغان باہمی تجارت میں جو مشکلات دنیا بھر میں کورونا وائرس اور لاک ڈاو¿ن کی وجہ سے درپیش تھیں‘کے ازالے کے لئے موقع پر جا کر اُن مشکلات کا جائزہ لینا تھا‘افغانستان پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ جسے ( اے پی ٹی ٹی اے) بھی کہا جاتا ہے ایک باہمی تجارتی معاہدہ ہے جس پر پاکستان اور افغانستان کے درمیان 2010 ءمیں دستخط ہوئے تھے جس میں دونوں ممالک کے مابین سامان کی نقل و حرکت میں زیادہ سے زیادہ سہولیات دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے ‘ افغانستان تین کروڑ نفوس پر مشتمل ایشیا کا ایک نہایت اہم ملک ہے پسماندہ ہونے کے باوجود امریکی فوج کی افغانستان میں موجودگی کی وجہ سے نہایت شہرت کا حامل ہے‘محل و قوع کے اعتبار سے چاروں اطراف سے خشکی میں گھرا ہوا ہے‘ خشکی کے راستے اقوام متحدہ کے قوانین کے مطابق جنیوا کنونشن 1958ءکے تحت پڑوسی ممالک پر سہولتیں مہیا کرنا لازمی قرا ردیا تھا ‘معاہدے کے تحت پانچ مقامات کو ٹرانزٹ ٹریڈ کےلئے مختص کیا گیاتھا لیکن اس کے برعکس آخر کار امریکی سرکار کے ایماءپر پاکستان اور افغانستان کے درمیان اکتوبر 2010ءکو افغانستان پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ کا نیا معاہدہ عمل میں لایا گیا یہ معاہدہ58آرٹیکلز اور تین پروٹوکولز پر مشتمل دستاویز تھی‘اس نئے معاہدے میں این ایل سی کی جگہ بانڈڈ کیرئیر کو سامان تجارت کی اجازت دے دی گئی یہ بانڈڈ کیرئیر نجی شعبے سے تعلق رکھنے والے وہ ٹرانسپورٹرز ہیں جو اس سامان تجارت کی پاکستان کی بندرگاہوں سے افغانستان تک ترسیل کے ذمے دار ہیں یہ ٹرانسپورٹرز ایف بی آر کے پاس رجسٹرڈ ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ پاکستان ریلوے کو بھی افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت آنے والے سامان تجارت کی ترسیل کی اجازت برقرار رہی، اس طرح یہ سامان پاکستان کی بندرگاہوں سے افغانستان تک ترسیل ہوتا رہا‘ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت آنے والے سامان تجارت کی پاکستان ریلوے کے ذریعے ترسیل سب سے سستا اور آسان ذریعہ سمجھا جاتا رہا ہے، پاکستان ریلوے کو بھی اس سے بہت معقول آمدنی ہورہی تھی‘پاکستان ریلوے کی گیتا گڈز ٹرین سروس بند ہونے کا ملک کو بہت نقصان ہوا، ایک جانب پاکستان ریلوے کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ بند ہوگیا تو دوسری جانب پاکستان میں ٹرانسپورٹیشن کا کوئی معقول انتظام نہ ہونے کی وجہ سے اس ملک کے راستے آنے والا افغان کارگو ایران کی بندرگاہ بندر عباس اور چابہارکی جانب منتقل ہونے لگا، ایک اندازے کے مطابق اب تک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا 70فیصد کارگو ایران کی بندرگاہ بندرعباس پر منتقل ہوچکا ہے، اس کے باوجود پاکستانی بندرگاہوں کے ذریعے تجارت افغان تاجروں کی ہمیشہ سے پہلی ترجیح رہی ہے اور وہ اب بھی یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کے راستے اپنی تجارت کریں۔ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا نصف سے زیادہ کاروبار پہلے ہی یا تو ایران کی چاہ بہار بندرگاہ منتقل ہو چکا ہے یا اس کی تیاری ہو رہی ہے،کراچی سے طورخم کے راستے میں ان کنٹینرز کو سکھر، ڈیرہ اسماعیل خان، کوہاٹ اور پشاور میں کسٹم چیک پوسٹ پر رپورٹ کیلئے رکنا پڑتا ہے‘ یہاں ٹرک ڈرائیوروں کا سامنا کسٹمز اور پرائیویٹ پارکنگ ایریا کے نجی ٹھیکیداروں کی کارگزاریوں سے ہوتا ہے۔ 7اپریل کے نوٹیفکیشن کے نتیجے میں کراچی کی بندرگاہ پر ٹرانزٹ ٹریڈ کے سات ہزار سے زائد کنٹینر جمع ہو چکے تھے‘ تادم تحریر کراچی و بن قاسم بندرگاہوں میںسات ہزار کنٹینر دو بڑی وجوہ کی بنا پر رکے ہوئے ہیں، پہلی وجہ پاکستان کسٹم ہے‘کاغذوں پر تو افغان کارگو کی کلیئرنس دو سو کنٹینر فی دن ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر کلیئر ہونے والے کنٹینروں کی تعداد ایک سو پچاس سے بھی کم ہوتی ہے ‘دوسرا تمام افغان کارگو کنٹینروں پر ایک ٹریکر ڈیوائس لگائی جاتی ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ کنٹینر سرحد پار کرے‘ صرف انہی کنٹینروں کو بندرگاہ سے نکلنے کی اجازت ملتی ہے جن پر یہ ڈیوائس لگ جاتی ہے‘ یہ جی پی ایس ٹریکر ڈیوائس بارڈر پر اتاری جاتی ہے اور اس کے بعد ہی ٹرک واپس کراچی کے لئے روانہ ہوتا ہے‘ اس وقت کراچی میں سب سے بڑا مسئلہ ٹریکر ڈیوائس کا ہے جو کہ صرف ایک ہی کمپنیTPLکو ٹھیکہ دیا گیا ہے جو کہ ناکافی ہے لہٰذا دوسری کمپنیوں کو بھی ٹھیکہ دیا جائے‘TPL(ٹی پی ایل)کمپنی فی کنٹینر 7500/-روپے چارج کر رہی ہے جبکہ سالانہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا حجم تقریباً 1لاکھ سے 1لاکھ20ہزار کنٹینرز ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ دیگر دوسری ٹریکرکمپنیوں کو بھی ٹھیکہ دیا جائے کیونکہ ٹی پی ایل اکیلایہ کام نہیں کر سکتی‘اس وقت صورت حال یہ ہے کہ کراچی سے طورخم بارڈرز تک مارچ 2020ءسے پہلے ایک ہفتہ لگتا تھا اب یہ تقریباً 40دن سے45دن لگتے ہیں جس کی وجہ سے افغان تاجروں کو بھاری ڈی ٹینشن چارج اور ڈیمرج دینا پڑتا ہے شپنگ کمپنیاں 100ڈالر سے120ڈالر روزانہ کے حساب سے چارج کرتی ہیں جبکہ پورٹ چارجز 4000/-روپے روزانہ ہیں ایف بی آر کے نئے حکم نامے کے مطابق ہر کنٹینر کو سکین کرنے کی شرط لگا دی گئی ہے جبکہ پہلے 5فیصد ایگزامینیشن کی جاتی تھی طورخم کے راستے میں ٹرانزٹ ٹریڈ کے کارگو ٹرکوں کو لازماً چار پوائنٹس بشمول پشاور پر رپورٹ کرنا پڑتی ہے‘ یہاں رپورٹ کرنے کی پابندی کا مطلب ہے کہ کارگو عملے کو ہر طرح کی پریشانی و ہراسانی کا سامنا کرنا پڑے گا اور یہاں مختلف محکمے ہر طرح سے ان کو نچوڑنے کیلئے کئی طرح کے حربے استعمال کرتے ہیں‘ یہاں سے نکلنے والوں کو باڑہ متنی پر ٹرانسپورٹرز یونین مافیا والے روک لیتے ہیں۔

اس وقت تقریبا پچیس سو سے زائد کارگو ٹرک پشاور کے مضافات میں باڑے میں قطار میں لگے ہوئے ہیں‘ تاجر حضرات مدد کے لئے ہاتھ پاﺅں مار رہے ہیں لیکن کسی کو ان ٹرکوں کو ٹرانسپورٹر مافیا کے چنگل سے چھڑانے میں کوئی زیادہ دلچسپی نہیں ہے؛ یہ مافیا ہر ٹرک سے بھتہ وصول کرکے اپنی جیبیں گرم کر رہا ہے،یہ کیونکر ممکن ہے کہ ریاست پاکستان افغان ٹرانزٹ ٹریڈ سے وابستہ ان تاجروں کو سزا دے جنہوں نے پہلے اپنا سامان بندرگاہ پر سکین کرانے کے سست رفتار عمل سے گزارا اور اس کے بعد ان کے ٹرک پانچ مختلف مقامات پر کلئیرنس کے سست رفتار عمل سے گزرے؟کیا وجہ ہے کہ یہ ٹرانزٹ ٹرک عالمی سرحد کے آس پاس حکام اور مقامی ٹرانسپورٹروں کی ہراسانی کا نشانہ بنتے ہیں؟ یہ صورتحال متقاضی ہے کہ اس معاملے کو سلجھانے کے لئے اعلیٰ ترین سطح پر مداخلت کی جائے۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان اور آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کو اس حوالے سے فوری کاروائی کرنی چاہیے تاکہ چند کالی بھیڑوں کے ہاتھوں پاکستان کی ساکھ برباد ہونے سے بچائی جا سکے۔2010ءکامعاہدہ اس وقت سبوتاژ ہو چکا ہے‘ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں ممالک کے حکام سنجیدگی سے دونوں جانب کے اسٹاک ہولڈرزکی مشورے سے اس معاہدے پر نظر ثانی کرتے ہوئے اسے فعال بنایا جائے۔