دنیا میں انقلابات کی کہانیاں جب بھی لکھی گئی ہیں ان کے ساتھ ہی ان انقلابوں کی وجوہات کا بھی تاریخ میں تفصیل سے ذکر ہے اور ان ظلم و ستم کی اندھیوں کے چلتے رہنے کی بھی تفصیلات درج ہیں جن میں زندگیاں گزارتے گزارتے ان ممالک کے عوام کی ایک کے بعد دوسری نسل افلاس ‘ بھوک‘ اور ننگ کے ساتھ قبروں تک چلی گئی ‘ انقلاب سے جڑے وہ لیڈر اور بہادر رہنما جن میں سے کچھ تو اپنے لائے ہوئے انقلاب کا ثمر بھی نہ دیکھ سکے اور پھانسیوں پر چڑھ گئے اور چند ایسے خوش نصیب بھی تھے جنہوں نے ظلم و ستم کی آندھی کو نہ صرف روکا اور ختم کیابلکہ امن سکون کازمانہ اپنی آنکھوںسے سے دیکھ بھی لیا ‘روس میں آنے والا نقلاب ہر اعتبار سے عوام کی بہادری کاثبوت ہے کہ زار روس کے رعب و دبدبہ اور بربریت کے سامنے کوئی انسان کبھی زندہ بچ ہی نہیںسکا زار روس کا زمانہ صدیوں تک انسان کے ارزاں خون کا المناک زمانہ تھا۔لینن1970-1924 بھی ان ہی مظلوم انسانوں کا نوجوان رہنما تھا جس کا خاندان روس کے زار کے ظلم کا نشانہ بنا تھا ۔لینن کا اصل نام ولادمیر للیچ تھا اس کا بڑا بھائی زار روس الیگزنڈر سوم کے قتل کی سازش میں گرفتار ہوا اور بعد میںبادشاہ کے حکم پراس کو پھانسی دے دی گئی اور رو س میں یہ پھانسیاں بڑی عام ہوئی تھیں اس طرح ولادمیر للچ بھائی کی اس المناک موت کے بعد سیاست میں آ گیا وہ گارڈن امپیرئل کالج پیٹرز برگ میںسٹوڈنٹس کے ایک احتجاج کی رہنمائی کررہا تھا جس کی سزا کے طور پر اس کو کالج سے نکال دیا گیا۔
اس واقعے کے بعد وہ نہ صرف اشتعال انگیز مضامین لکھنے لگا بلکہ چھپ کر عوام میں اس کوپھیلانے بھی لگا‘ اور وہ مضامین زیادہ تر انیسویں صدی کے جرمن فلاسفرکارل مارکس کے نظریات پر مبنی تھی جو انیسویں صدی کامشہور سوشلسٹ مصنف تھا آنے والے سالوں میں ولادمیرللیچ اپنے آ پکو سوشلسٹ کہلوانے لگا مارکسی نظرئیے کے مطابق سرمایہ دار اور ایک عام مزدور کے درمیان ایک کشمکش تھی جو طبقاتی فرق کو جنم دیتی ہے اورمارکسی نظریے میں مزدور نے معیشت کو اپنے ہاتھ میں لینا ہے تاکہ سرمایہ دار کی اجارہ داری دولت پر ختم ہو جائے ۔ولادمیر للیچ لینن کسی طرح اپنے کالج سے قانون کی ڈگری لینے میں کامیاب ہو گیا اور سینٹ پیٹرز برگ میں1890ءمیں قانون کی پریکٹس کرنے لگ گیا اور زار روس کے جاسوس اس طرح پورے روس میں پھیلے ہوتے تھے کہ بہت جلد اپنے مارکس ازم نظرئیے کے ساتھ پکڑا گیا اور سزا کے طور پر سائبیریا کے برفانی علاقوں میں بھیج دیا گیا جہاں اسی کی طرح سزا یافتہ مارکسٹ لوگ اس کو ملے جن کو یورپ سے یہاں بھیجا گیا تھااسی دوران اس نے اپنا نام تبدیل کرکے سی ڈونم لسینن رکھ لیا اور بالشویک پارٹی کی بنیاد رکھی 1914ءمیں جنگ عظیم اول شروع ہوئی اور روس نے جرمنی کے ساتھ لڑائی شروع کی برطانیہ فرانس اور سرب اس کے حمایتی تھے تو روس اس بات سے بے خبر تھا کہ جرمن اس وقت کی جدید ٹیکنالوجی کے اعتبار سے مضبوط ملک تھا روس کی اس جنگ میں شرکت اس کی تباہی کا آغاز ثابت ہوئی روس کے 10 ملین سے بھی زیادہ فوجی میدان جنگ میں بھوک اور اسلحہ نہ ہونے کی وجہ سے سرد ترین موسم میں مر گئے پورا روس بحران کاشکار ہو گیا یہ زار روس کا آخری دور تھا اورنکولس دوم بادشاہ تھا جو نہایت کمزور ترین حکمران تھا لینن انہی لوگوں میں شامل تھا جو دل سے اس جنگ عظیم میں روس کی شکست چاہتے تھے ۔
ا ‘ جرمنی اس موقعے کے انتظار میں تھا اس نے لینن اور باقی انقلابیوں کے لئے ایسا انتظام کیا کہ وہ روس جائیں اور وہاں کا ڈوبتا ہوا نظام سنبھالیں ‘ ونسٹن چرچل نے جرمنی کے اس اقدام کے بارے میںلکھا کہ جرمنی نے ہتھیاروں سے بھرا ہوا ٹرک روس بھیج دیا ہے لینن1917ءمیں یہاں پہنچا انقلاب پہلے سے پھیلا ہوا تھا عوام کی طاقت نے نکولس II کو تخت سے اترنے کےلئے مجبور کر دیا تھا اورعوام ایک عارضی حکومت بناچکے تھے جو سوشل ریفارم بھی لا رہی تھی اور تشدد کی لہر کو روکنے کی کوشش بھی کر رہی تھی اور جنگ عظیم بھی جاری تھی ‘ لینن نے اس پرویژنل حکومت کے خلاف منصوبہ بندی کی کیونکہ وہ بھی ڈکٹیٹر شپ کی ہی ایک شکل تھی لینن مارکسٹ تھا وہ تو عوام کی حکومت چاہتا تھا ‘ جنگ عظیم کی ابتر صورتحال کے بعد عوام اور آرمی حکومت میں فوری تبدیلی چاہتے تھے لینن کو علم تھا کہ یہاں کوئی عوامی لیڈر موجود نہیں ہے ‘ اس نے خفیہ طور پر سرخ گارڈز کی بھرتی شروع کر دی جو رضا کار فوج کہلاتی تھی نومبر کی ساتویں رات تھی جب اس سرخ آرمی نے گورنمنٹ کی عمارتوں کو اپنی حراست میں لے لیا اور بہت جلد حکومت کی طاقت کو ختم کر دیا اور سوویت قانون لاگو کر دیا گیا لینن دنیا کی پہلی کمیونسٹ ریاست کاپہلا لیڈر بن گیا اس نے فوری طور پر روس کو جنگ عظیم سے علیحدہ کرنے کےلئے بریسٹ لیٹوویسک معاہدہ کر لیا ‘ بالشویک انقلاب نے آنے والے تین سالوں تک ملک میں سول وار برپا کر دی ایک سفید فوج تھی جو ختم ہونے والی بادشاہت کی حامی تھی اور ایک سرخ فوج تھی جو کمیونزم نافذ کرنا چاہتی تھی سرمایہ داری اور جمہوریت کے نظریات کے داعی لوگ علیحدہ ہو گئے ‘ لینن نے اکنامک پالیسز متعارف کروائیں جنہوں نے عارضی طور پر روس کو سہارا دیا اور بادشاہ کی آرمی کو شکست دے دی گئی اس سول وار کے دوران لینن نے تمام کارخانے اور پیداواری کمپنیاں حکومت کی تحویل میں لے لیں اس نے سرخ فوج کو ان کی آمدنی سے حصہ دینا شروع کر دیا اس اقدام سے انڈسٹری برباد ہو گئی اور 1921ءتک پانچ لاکھ افراد بھوک کا شکار ہو کر مر گئے اور ملک غربت کی لکیر سے بھی نیچے چلا گیا عوا م ان حالات میں دھمکیوں پر اتر آئے لینن نے نئی اکنامک پالیسی بنائی اور مارکسی طریقہ اپنایا۔
‘ آزاد سرمایہ کاری اور آزاد مارکیٹنگ۔ اس اقدام سے حکومت اور عوام میں استحکام آ گیا اس اکنامک قدم کے بعد بالشویک پارٹی نے ایک خصوصی فورس بنائی اس نے اپوزیشن میں اپنے دشمن ڈھونڈنا شروع کئے ‘یہ ایک ایسی فورس تھی جس سے زار روس کے چاہنے والوں کو ڈھونڈنے اور ان کو قتل کرنے کا کام لیا جا تا تھااس فورس نے اکتوبر1918ءتک ایک لاکھ لوگوں کو قتل کر دیا ۔1922ءمیں روس نے لینن کی سربراہی میں یوکرائن ‘ بیلا روس‘ جارجیا‘ آرمینا اور آزار بائیجان کے ساتھ مل کرUSSR بنائی لیکن اس وقت تک لینن کی صحت بہت خراب ہو چکی تھی اوروہ بولنے سے معذور ہو گیا اب وہ اکیلے حکومت کرنے کے قابل نہیںتھا کمیونسٹ پارٹی کا نیا جنرل سیکرٹری جوزف سٹالن اس کی غیر حاضری میں حکومت دیکھتا تھا جو زوف سٹالن چالاک آدمی تھا اس نے خفیہ طور پر طاقت حاصل کرنا شروع کر دی اور وہ لینن کے لئے بڑا خطرہ بن گیا لینن نے اپنی بیماری میں کمیونسٹ پارٹی کی کرپشن کے خلاف کئی مضامین لکھے اس نے سٹالن کو اس کے عہدے سے ہٹانے کے لئے تجاویز بھی دیں لیکن یہ سب مضامین عوام کے سامنے لینن کے مرنے کے بعد آئے جوزف سٹالن اس وقت تک طاقت حاصل کر چکا تھا لینن 1924ءمیں چل بسے اس کی موت پر ماسکو کی منفی درجے کی سردی میں10 لاکھ لوگوں نے گھنٹوں ایک لائن میں کھڑے ہوکر لینن کو خراج تحسین پیش کیا سب سے پہلے لینن کو ٹریڈ یونین ہاﺅس میں دفن کیا گیا بعد میں اس کی خنوط شدہ لاش کو ریڈ سکوائر کے مقبرے میں شیشے کے ایک گھر میں منتقل کیا گیا جہاں پر روز لاکھوں لوگ آج بھی لینن کے جسد کو دیکھنے آتے ہیں اور اس انقلابی رہنما کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں آج میںبھی ریڈ سکوائر میں اپنے بہت سارے ساتھیوں کے ساتھ کھڑی ہوں آج چھٹی ہونے کی وجہ سے مقبرہ بند ہے اور ہم اندر نہیں جا سکے لیکن ماسکو کے اس ریڈ سکوائر میں بکھری ظلم وستم کی لاکھوں داستانیں تاریخ کے صفحات سے بیان کر رہی ہیں اس طرح کی تاریخی جگہوں کو دیکھنے کے لئے سیاح کا تاریخ سے واقف ہونا نہایت ضروری ہے تب ہی وہ سیاق وسباق کے ساتھ ان جگہوں کی اہمیت سے آگاہ ہو سکتا ہے ۔