مردن گھاپر اپنی تصویریں اتارنے کے عادی تھے۔ 31 سالہ چینی ماڈل ایک آن لائن کپڑوں کے سٹور ’تاؤ باؤ‘ کی تشہیر کے لیے اپنی تصاویر اور ویڈیوز بناتے تھے اور ان جاذبِ نظر تصاویر اور ویڈیوز کا انھیں معقول معاوضہ ملتا تھا۔
لیکن گھاپر کی بنائی جانے والی ایک ویڈیو ان کی دیگر ویڈیوز سے کچھ مختلف تھی۔
چمکتے دمکتے سٹوڈیو یا شہر کی کسی معروف شاہراہ کے برعکس ان کی ویڈیو میں نظر آنے والے پسِ منظر میں گرد اور مٹی سے اٹی دیواروں کا ایک خالی کمرہ تھا اور اس کی کھڑکی پر سٹیل کا جال لگا تھا۔ اس ویڈیو میں وہ کوئی پوز بنانے کی بجائے اپنے چہرے پر بے چینی کے تاثرات کے ساتھ خاموشی سے بیٹھے تھے۔
اس ویڈیو میں اپنے دائیں ہاتھ میں کیمرے کی مدد سے انھوں نے اپنے گندے کپڑے، سوجے ہوئے ٹخنے اور اپنے بائیں ہاتھ میں لگی ہتھکڑی دکھائی۔ ہتھکڑی کو کمرے میں موجود لوہے کے بیڈ کے ساتھ بندھا گیا تھا۔
گھاپر کی یہ ویڈیو اور اس کے ساتھ چند ٹیکسٹ میسجز بی بی سی کو بھی بھیجے گئے۔ یہ چین کے انتہائی محفوظ اور خفیہ حراستی مراکز کے اندر سے بھیجی جانے والی پہلی اور نایاب مگر خوفناک ویڈیو تھی
اس مواد نے چین کی جانب سے ملک کے دورافتادہ مغربی سنکیانگ صوبے کے علاقے میں ’تین شیطانی قوتوں‘ یعنی علحیدگی پسندی، دہشتگردی اور انتہا پسندی کے خلاف جاری لڑائی کے موجود شواہد میں اضافہ کیا ہے۔
گذشتہ چند برسوں کے دوران مستند تخمینے کے مطابق دس لاکھ سے زائد چینی مسلمان اویغور اور دیگر اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو جبری طور پر چین نے سنکیانگ صوبے کے سرکاری حراستی مراکز میں مقید رکھا گیا ہے۔
چین ان کو انسداد شدت پسندی کی تربیت کے رضاکارانہ سکول قرار دیتا ہے۔
ہزاروں بچوں کو ان کے والدین سے جدا کر دیا گیا ہے جبکہ حالیہ تحقیق سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ ان مراکز میں موجود خواتین کو جبری طور پر مانع حمل کے طریقے اختیار کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔
اس کے علاوہ گھاپر کی ویڈیو سے ان مراکز میں تشدد اور بدسلوکی کے الزامات کے واضح شواہد ملتے ہیں۔ حالانکہ چین نے متعدد بار کہا ہے کہ ان تعلیمی مراکز میں سے بیشتر کو بند کر دیا گیا ہے تاہم شواہد بتاتے ہیں کہ اویغور اب بھی بڑی تعداد میں بنا کسی جرم کے ان مراکز میں قید ہیں۔
گھاپر کی جانب سے بنائی گئی اس ویڈیو میں چین کی اویغور برادری پر بڑے پیمانے پر نفسیاتی دباؤ ڈالنے کی نئی تفصیلات بھی شامل ہیں۔ ان میں ایک دستاویز بھی شامل ہے جس میں 13 سال کے بچوں کو ’توبہ کرنے اور گرفتاری‘ دینے کا کہا گیا ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب سنکیانگ میں کورونا کے متاثرین کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے گھاپر نے ان حراستی مراکز کے مخدوش، گندے اور گنجان آباد حالات پر ویڈیو بنا کر عالمی وبا کے دور میں ان حراستی مراکز میں کورونا کے ممکنہ پھیلاؤ کے مسئلے کو اجاگر کیا ہے۔
بی بی سی نے اس بارے میں سرکاری موقف جاننے کے لیے چین کی وزارت خارجہ اور سنکیانگ حکام سے متعدد بار رابطے کرنے کی کوشش مگر ان میں سے کسی نے جواب نہیں دیا۔
گھاپر کے اہلخانہ کو ان پیغامات کے بند ہونے کے بعد گذشتہ پانچ ماہ سے اُن کے متعلق کچھ علم نہیں ہے۔
انھیں اندازہ ہے کہ گھاپر کی جانب سے اپنے سیل میں بنائی جانے والی اس چار منٹ 38 سیکنڈ کی ویڈیو کے بعد ان پر ممکنہ طور پر مزید دباؤ ڈالا گیا ہو گا اور انھیں مزید سزا کا سامنا کرنا پڑا ہو گا۔
لیکن ان کا کہنا ہے کہ خصوصی طور پر ان کے کیس کو اجاگر کرنا اور عمومی طور پر چین میں اویغوروں کے حالات کے متعلق بات کرنا ان کی ’آخری امید‘ ہے۔
مردن گھاپر کے چچا عبدالحکیم گھاپر، جو اب ہالینڈ میں مقیم ہیں، کا خیال ہے کہ یہ ویڈیو بھی ملک میں عوام کی رائے کو اسی طرح متاثر کر سکتی ہے جیسا کہ جارج فلائیڈ کے ساتھ پولیس کے سلوک کی فوٹیج امریکہ میں نسلی امتیاز کی ایک طاقتور علامت بن گئی تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ان دونوں نے اپنی نسل کے وجہ سے بربریت کا سامنا کیا ہے۔ لیکن امریکہ میں لوگ اپنی آواز اٹھا رہے ہیں جبکہ ہمارے کیس میں وہاں مکمل خاموشی ہے۔
سنہ 2009 میں مردن گھاپر نے بھی بہتر مستقبل کے لیے دیگر اویغور شہریوں کی طرح سنکیانگ چھوڑ کر ملک کے مشرقی علاقوں کا رخ کیا تھا۔
انھوں نے سنکیانگ آرٹس یونیورسٹی سے ڈانس کی تعلیم حاصل کر رکھی تھی۔ انھیں پہلے ایک ڈانسر کی نوکری ملی اور پھر چند برسوں بعد انھوں نے جنوبی چین کے شہر فوشان میں ماڈلنگ کے پیشے کو اختیار کر لیا تھا۔ گھاپر کے دوستوں کے مطابق وہ روزانہ ایک ہزار پاؤنڈز تک کما لیتے تھے۔
مردن گھاپر کی کہانی ملک کی متحرک اور بڑھتی ہوئی معیشت اور صدر شی جن پنگ کے ’چین کے خواب‘ کے اشتہار کی طرح لگتی ہے۔
لیکن چینی حکام طویل عرصے سے اویغوروں کو ان کی ترک زبان، اسلامی عقیدے اور وسطی ایشیا کے لوگوں اور ثقافتوں سے تعلق کے باعث شکوک و شبہات کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جبکہ انھیں چینی معاشرے میں بھی وسیع پیمانے پر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مردن گھاپر کے رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ مردن کو بتایا گیا تھا کہ ان کے ماڈلنگ کریئر کے لیے یہ بہتر ہو گا اگر وہ اپنی اویغور کی شناخت کو چھپا لیں اور اپنے چہرے کے خدوخال کے متعلق لوگوں سے کہیں کہ وہ ’آدھے یورپی‘ ہیں۔
ان کے رشتہ داروں کا کہنا تھا کہ حالانکہ مردن نے اتنا بہت پیسہ کما لیا تھا کہ وہ ایک مناسب اپارٹمنٹ خرید سکتے لیکن وہ اس کو اپنے نام پر نہیں کروا سکتے تھے جبکہ انھوں نے اس کے لیے اپنی ایک چینی دوست ہان کا نام استعمال کیا اور انھیں اپنی دوست کے نام پر فلیٹ خریدنا پڑا۔
لیکن یہ نا انصافیاں ان کے لیے مستقبل کی مشکلات کے سامنے معمولی لگتی ہے۔
سنہ 2013 میں چین کے شہر بیجنگ اور سنہ 2014 میں کنمنگ شہر میں راہ گیروں پر ہونے والے وحشیانہ حملوں کے بعد سے، جن کا الزام چین اویغور علیحدگی پسندوں پرعائد کرتا ہے، ریاست نے ملک میں اویغوروں کو نہ صرف شک کی نگاہ سے دیکھنا شروع کیا ہے بلکہ انھیں غدار بھی سمجھا جانے لگا ہے۔
سنہ 2018 میں جب ریاست چین نے اویغوروں کے متعلق اپنا موقف اپنا لیا تو سنکیانگ میں تیزی سے اور وسیع پیمانے پر کیمپوں اور جیلوں کا ایک نظام تعمیر کیا گیا تھا۔
اس وقت تک گھاپر چین کے شہر فوشان میں مقیم تھے جہاں ان کی زندگی میں اچانک سے بُرے دور کا آغاز ہونے والا تھا۔
اسی برس اگست میں انھیں بھنگ فروخت کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور 16 ماہ قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ ان کے دوستوں کا کہنا ہے کہ یہ الزام ’من گھڑت‘ تھا۔
وہ واقعی مجرم تھے یا نہیں لیکن ان کی بریت کا امکان بہت کم تھا۔ ملک کے اعداد و شمار سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ چین فوجداری عدالتوں کے سامنے لائے جانے والے 99 فیصد افراد کو سزا سنائی گئی ہے۔
لیکن نومبر 2019 میں ان کی رہائی کے وقت ملنے والی خوشی بہت قلیل مدتی تھی اور ایک ماہ سے کچھ زیادہ عرصہ کے بعد پولیس نے ایک بار پھر ان کے گھر کے دروازے پر دستک دی اور انھیں بتایا گیا کہ انھیں معمول کے رجسٹریشن عمل کے لیے سنکیانگ واپس جانا ہو گا۔
بی بی سی نے ایسے سات ثبوتوں کا مشاہدہ کیا ہے جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انھوں نے کوئی اور جرم نہیں کیا تھا جبکہ حکام کا کہنا تھا کہ ’انھیں اپنی مقامی برادری میں چند دن تعلیم و تربیت حاصل کرنے کی ممکنہ ضرورت ہے۔‘
یہ چینی حکام کی جانب سے حراستی مراکز میں لے جانے کا ایک اچھا انداز میں بنائے جانے والا بہانہ ہے۔
رواں برس 15 جنوری کو گھاپر کو فوشان سے سنکیانگ میں ان کے آبائی شہر کچا لے جانے سے قبل ان کے اہلخانہ اور دوستوں کو ان کے لیے گرم کپڑے اور موبائل فون لانے کی اجازت دی گئی۔ گھاپر کے ساتھ دو پولیس اہلکار بھی آئے تھے۔
یہ شواہد بھی موجود ہیں کہ دیگر اویغوروں کو چین کے دیگر علاقوں یا بیرون ملک سے جبری طور پر واپس ان کے گھر بھیجا گیا۔
مردن گھاپر کے اہلخانہ کو یقین ہے کہ وہ انھی تعلیم کے نام سے بنائے گئے حراستی مراکز میں کہیں کھو گئے ہیں۔
لیکن گھاپر کی بنائی جانے والی ایک ویڈیو ان کی دیگر ویڈیوز سے کچھ مختلف تھی۔
چمکتے دمکتے سٹوڈیو یا شہر کی کسی معروف شاہراہ کے برعکس ان کی ویڈیو میں نظر آنے والے پسِ منظر میں گرد اور مٹی سے اٹی دیواروں کا ایک خالی کمرہ تھا اور اس کی کھڑکی پر سٹیل کا جال لگا تھا۔ اس ویڈیو میں وہ کوئی پوز بنانے کی بجائے اپنے چہرے پر بے چینی کے تاثرات کے ساتھ خاموشی سے بیٹھے تھے۔
اس ویڈیو میں اپنے دائیں ہاتھ میں کیمرے کی مدد سے انھوں نے اپنے گندے کپڑے، سوجے ہوئے ٹخنے اور اپنے بائیں ہاتھ میں لگی ہتھکڑی دکھائی۔ ہتھکڑی کو کمرے میں موجود لوہے کے بیڈ کے ساتھ بندھا گیا تھا۔
گھاپر کی یہ ویڈیو اور اس کے ساتھ چند ٹیکسٹ میسجز بی بی سی کو بھی بھیجے گئے۔ یہ چین کے انتہائی محفوظ اور خفیہ حراستی مراکز کے اندر سے بھیجی جانے والی پہلی اور نایاب مگر خوفناک ویڈیو تھی۔
لیکن تقریباً ایک ماہ بعد انھیں ایک بہت ہی حیران کُن خبر سننے کو ملی۔
وہ خبر یہ تھی کہ کسی نہ کسی طرح مردن کو حراستی مرکز کے اندر اپنے موبائل فون تک رسائی مل گئی تھی اور وہ اسے بیرونی دنیا سے رابطے کے لیے استعمال کر رہے تھے۔
مردن گھاپر کے ٹیکسٹ میسجز، جن کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ اسی کمرے سے بھیجے گئے تھے جہاں انھوں نے اپنی ویڈیو بنائی تھی، سنکیانگ پہنچنے کے بعد ان کے تجربے کی اس سے بھی زیادہ خوفناک تصویر کی عکاسی کر رہے تھے۔
چین کی سوشل میڈیا ایپ وی چیٹ کے ذریعے لکھے جانے والے پیغامات میں انھوں نے بتایا کہ انھیں پہلے کچا میں پولیس جیل میں رکھا گیا۔
انھوں نے لکھا کہ ’میں نے ایک چھوٹے سے کمرے میں جو زیادہ سے زیادہ 50 میٹر کا ہو گا 50 سے 60 افراد کو قید دیکھا جہاں بائیں جانب مردوں اور دائیں جانب خواتین کو رکھا گیا تھا۔‘
سب نے نام نہاد ’چار پیس سوٹ‘ پہنا ہوا تھا جس میں ایک سر کو ڈھانپنے والی بوری، ہتھکڑیاں، بیڑیاں اور ایک لوہے کی چین تھی جو ہتھکڑی اور بیڑیوں کے ساتھ منسلک تھی۔
چین کی جانب سے ہتھکڑیوں اور بیڑیوں کے استعمال پر ماضی میں انسانی حقوق کی تنظیمیں تنقید کرتی رہی ہیں۔
مردن گھاپر کو بھی یہ سب کچھ پہنایا گیا اور انھیں دیگر قیدیوں کے ساتھ بند کر دیا گیا۔ اس سیل میں جہاں دو تہائی حصے پر قیدی تھے گھاپر کو علم ہوا کہ وہاں لیٹنا ممکن نہیں ہے۔
انھوں نے اپنے ٹیکسٹ میسجز میں سے ایک میں لکھا کہ ’میں نہ اپنے سر کے اوپر سے کپڑا ہٹایا اور پولیس افسر سے کہا کہ میری ہتھکڑیاں بہت سختی سے باندھی گئی ہیں اور اس سے میری کلائیوں میں تکلیف ہو رہی ہے۔
BBC News report