رات اندھیری ہے لیکن سڑک کے کھمبوں پرلگے بلب زرد روشنی بکھیر کے ماحول کو اداس کر رہے ہیں رات کے اس پہر میں بھی گاڑیاں فراٹے بھرتی جارہی ہیں‘ لاہوربڑا شہر ہے رات گئے تک رونق میلے قائم رہتے ہیں گورنر ہاﺅس لاہور کے بالکل سامنے سرسبز فرش پر جنگلے کے ساتھ ایک ذرا بڑی عمر کی عورت اور ایک بچہ اس طرح سو رہے ہیں کہ بچے نے ماں کے بازو کو تکیہ بنایا ہوا ہے اور ماں کا سر اس سہولت سے بے نیاز ہے شاید وہ سڑک پر بھیک مانگتے مانگتے رات کے اس پہر گہری نیند سوگئے ہیں ظاہر ہے گھر جیسی نعمت ان کے پاس میسر نہیں ہوگی ورنہ ایک عورت چاہے کتنی ہی غریب مسکین نہ ہو اپنی جھونپڑی تک اپنی عزت و عصمت چھپانے ضرور پہنچ جاتی ہے‘ میں نے یہ تصویر اخبار کے ایک صفحے کی زینت بنتے ہوئے دیکھی ہے میرے دل نے بھی ان ہزاروں لاکھوں حساس دلوں کی طرح ضرور سوچا‘ کیا گورنر صاحب اور اسکے اہل خانہ کو علم ہوگا کہ ایک غریب خاندان کے افراد اس کے سبزہ زار پر بے کسی کے عالم میں سوئے پڑے ہیں یا گورنر ہاﺅس کا وسیع و عریض سٹاف جانتا ہے کہ رات کے اس پہر اس ملک میں کوئی بے گھر انکے دروازے پر زبان حال سے انصاف مانگ رہا ہے بس یہ ایک احساس ہے ‘ اس طرح کے مناظر دیکھ کر دل میں ایک ٹیس سی اٹھتی ہے ‘ وہ ٹیس جو دل کا ہی طواف کرکے آہ کی صورت میں ہونٹوں سے نکل جاتی ہے‘ ایک اور منظر میرے احساس کو زخمی کرنے کیلئے چلا آرہاہے میں کیا دیکھتی ہوں کہ ایک ادھیڑ عمر ماں فرش پر گری ہوئی ہے اس طرح کہ اس کا جوان بیٹا اس کے اوپر پاﺅں رکھ کر جھک کر کھڑا ہے اور تھپڑ ومکوں کی بارش ماں کے جسم اور منہ پر لگاتار کرتا ہوا نظر آرہا ہے۔
جوان بہنیں اور ماں بھی رو رہے ہیں چیخ رہے ہیں لیکن وہ غصے میں ہے اور آج ہر صورت میں اپنا غصہ اپنی بوڑھی ماں کو دکھانا چاہتا ہے تاکہ وہ آئندہ کیلئے اس کی جوان زندگی میں دخل اندازی نہ کرے میں ایک ماں ہوں اور ان تمام مراحل سے گزر رہی ہوں جو ایک ماں اپنے بچوں کی پیدائش سے لے کر ان کو طاقت ور بنانے تک لگاتی ہے اور جب آئینہ دیکھنے کی فرصت ملتی ہے تو اس آئینے میں ایک بوڑھی عورت نظر آتی ہے جس کے بال سفید ہوتے ہیں اور آنکھیں چند ھیائی ہوئی ہوتی ہیں‘ یہ دکھی منظر دیکھ کر میرا احساس دل کے اندر ہی اندر بین کرتا ہے میں کچھ بھی نہیں کرسکتی بس اپنے آنسوﺅں کو بہتا ہوا چھوڑ دیتی ہوں شاید اس طرح میرے سوگوار احساس کو کچھ دلاسہ مل جائے بہت جلد ہی ایک اور نظارہ میرے زندہ احساس کو جنجھوڑنے کیلئے ان موجود رہتا ہے نہایت نحیف ونزار90سالہ بڑھیا ایک ایسی پناہ گاہ میں موجود ہے جہاں اس نے زندگی کے کئی سال ایک ترس دل خاندان کے ساتھ گزار دیئے ہیں اس کے اردگرد بہت سے دردمند لوگ جمع ہیں اور اسکو مجبور کر رہے ہیںکہ وہ اپنے بیٹے کو معاف کردے اور اس کے ساتھ اپنے گھر واپس چلی جائے بڑھیا سننے سے بھی قاصر ہے لیکن مجھے تو لگا کہ اب اس کے دل کی طرح اس کے کان بھی پتھر کے ہوچکے ہیں وہ سن کر بھی نہیں سن رہی ایک کے بعد ایک آگے ہو کر اس کے کان کے ساتھ منہ لگا کر ایک ہی جملہ دہرا رہا ہے اماں جی اپنے بیٹے کو معاف کردو اور گھر واپس چلی جاﺅ۔ ” میں گھر جاکر کیا کرونگی میرا کوئی گھر نہیں ہے“ یہ جملے اور اسکے زخمی پہلو وہی عورت سمجھ سکتی ہے۔
جس سے اسکا گھر چھین لیاگیا ہو‘ زندگی میں ایک وقت آتا ہے کہ گھر اور باہر کا تصور ختم ہو جاتا ہے اور حقیقت میں تلخی کا زہر جسم کے اندر سرائیت کر جاتا ہے پھر گھر ہو یا گلی ہو سڑک پر سبزے کے اوپر نیند ہو یا کسی کے گھر کے کونے کا فرش ہو سب کا سراپا ایک ہی ہوتا ہے‘ بڑھیا کے ساتھ یہی احساس شدت کے ساتھ موجود تھا اسلئے اب اسکو کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا کہ اس کا ادھیڑ عمر کا بیٹا ماں کا لحاف ہٹا کر اسکے پاﺅں پر آنکھیں رکھ کر آنسو بہا رہا ہے اسے تو صرف یہ یاد تھا کہ اس کے بیٹے نے اس کو مارا تھا اور اس کے پاﺅں کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی پھر وہ اسکو ایک انجان سڑک کے کنارے بٹھا کر دور چلا گیا تھا وہ گھنٹوں روتی رہی تھی اس درد سے نہیں جو ٹوٹی ہوئی ہڈی سے اٹھ رہا تھا اس درد سے جو اس کے دل سے نکل رہا تھا نہ جانے کب ایک درد مند خاندان نے گاڑی روکی تھی اسکو اٹھا کر گاڑی میں بٹھایا تھا اور پھر اس دن سے اسکا خاندان اس کا گھر‘ اسکی گلی محلہ اور اسکی اپنی زندگی کہیں کھو گئی تھی نہ جانے کتنے سالوں سے وہ اس خاندان کے ساتھ موجود تھی کہ چہرہ جسم سب کمزور اور لاغر ہوچکے تھے‘ بیٹے کو دکھ تھا کہ اس نے ماں کی ہر خدمت بھلا کر اپنے پھلتے پھولتے کاروبار اور دولت مند دنیا سے ماں کو گھر سے کیا نکالا کہ ریوائنڈ بٹن کی طرح اللہ تعالیٰ نے سب آسائشیں‘ ایک ایک کرکے واپس لے لیں وہ عورت جس پر وہ ماں کو فوقیت دینے لگا تھا غربت کے لمحات برداشت نہ کرسکی طلاق لے کر چلی گئی اور ماں کو ڈھونڈنے نکلا تو وہ اس انجان سڑک سے اس کے ضمیر کی طرح ہی غائب ہو چکی تھی نہ جانے کتنے سال ماں کی تلاش میں ٹھوکریں کھائیں۔
ماں ملی تو ایسے کہ اس نے پہچاننے سے ہی انکار کردیا‘ ماں پر اس کے آنسو اور ندامت کا ڈرامہ کوئی اثر نہیں کر رہا تھا لیکن وہ ماں ہی کیا کہ جو بچوں کے گناہوں کو معاف نہ کردے وہ ماں جس نے مار کھائی‘ بچے کی ضمانت دیکر جیل سے باہر لے آئی اور اب ایک یہ ماں ہے کہ آخر کار چل پڑی اس گھر کی دہلیز کی طرف جس پر وہ کبھی جانا نہیں چاہتی تھی‘ میرا احساس بس سب کچھ دیکھ رہاہے اور برف کی مانند منجمد لیکن پگھل رہا ہے آنسوﺅں کی صورت قطروں کی شکل میں بہہ رہا ہے کسی نے مجھ سے پوچھا کیا کورونا کی لاکھوں اموات اور جامد زندگی سے دنیا والوں نے کچھ سبق حاصل کیا ہے میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا ہاں وہ قتل و خون کی وارداتیں‘ کرپشن کی داستانیں اور خود کشی کی ان کہی ہزاروں کہانیاں میری نظروں کے سامنے آگئیں جو اس وبا کے دنوں میں بھی جاری و ساری رہیں یمن اور ایتھوپیا کے غریب اور سوکھے ہونٹوں والے بچوں میں اب کوئی فرق نہیں لگتا ہم ایسے لوگ ہیں کہ ہمیں سبق حاصل نہیں ہوتا جنازے اٹھتے ہیں ہم دفن کرتے ہیں اپنے لوگوں کو اپنے سامنے مرا ہوا دیکھتے ہیں لیکن ہمیں پوری امید ہوتی ہے کہ میں نے نہیں مرنا ہے کاش ہمارا احساس زندہ رہے اور کچھ احساس ایوان بالا تک دوڑتا ہوا بھی چلا جائے اور معاشروں میں سدھار آتا جائے۔