سامان سوبرس کاپل کی خبرنہیں

اگر کوئی یہ معلوم کرنا چاہے کہ پاکستانی معیشت کی بربادی میں بیڈ گورننس کے بعد کون سی تین چیزیں تباہی کا باعث بنیں، تو بڑی آسانی سے کہاجاسکتا ہے کہ اول توانائی کا بحران ، دوم توانائی کا بحران اور سوم توانائی کا بحران ‘توانائی کی قلت نے قومی معیشت کو وہ دھچکے اور جھٹکے لگائے ہیں جس نے اس کی چولیں تک ہلا کر رکھ دی ہیں۔ وہ لوڈ شیڈنگ کے مناظر جو کبھی ٹی وی سکرین پر صرف دیکھنے دکھانے کے مناظر تھے، آج ملکی معیشت کی تباہ حالی کا ماتمی لباس اور علامت بن چکے ہیں۔ایک بات میری سمجھ میں نہیں آتی ہمارے ملک کے اُمراء، روساءاور بعض سیاست دان جوبینکوں سے کروڑوں روپے لیکر معاف کرالیتے ہیں لیکن کچھ عرصہ بعد دوبارہ لائن میں لگ جاتے ہیں ‘ سمجھ میں نہیں آتا کہ اتنا پیسہ خرچ کیسے کرتے ہیں۔مزے کی بات یہ ہے کہ اُن میں سے اکثر بجلی اور ٹیلی فون کے بل بھی ادا نہیں کرتے اور بعض تو اپنا‘اپنے بچوں اور بیوی کا علاج بھی سرکاری پیسے سے کراتے ہیں اورپانچ ہزار خرچ کرتے ہیں اور پانچ لاکھ وصول کرتے ہیں۔ ہمارے ملک کا ایک بااثر طبقہ اربوں روپے ڈکارے بیٹھا ہے ، ان کے احتساب کا بھی سلسلہ جاری ہے تاہم ابھی تک ان سے وہ پیسہ واپس نہیں لایا گیا ہے جو یہ لوگ ڈکار چکے ہیں۔ان کو دولت کہاں سے ملی اور کیسے ملی یہ اب راز نہیں رہا۔اس بات میں ذرا شک نہیں ہے کہ دولت انسان کی ضرورت بھی ہے۔ اس سے انسان کی زندگی جڑی ہوئی بھی ہے اورپیسے کی انسان کو زندہ رہنے کےلئے آکسیجن کی طرح ضرورت ہے اس کے بغیر انسان مرجاتا ہے لیکن انسان کو دولت کا پجاری بھی نہیں بننا چاہئے کہ سب کچھ بھول کر دولت ہی کو سب کچھ مان بیٹھے، یہاں یہ کہنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ محض سیاستدانوں نے ہی ملکی خزانے کو نقصان نہیں پہنچایا، جس کا جتنا بس چلتا ہے۔

 سرکاری خزانے کو شیر مادر سمجھ کر ہضم کرنے کیلئے موقع کے انتظار میں ہے۔ کوئی غیر سرکاری این جی او یا فلاحی ادارے قائم کر کے بھی ادھر اُدھر سے پیسہ کمانے کے جتن میں مصروف ہے۔کوئی بیورو کریٹس کی شکل میں عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتا ہے۔ کرپشن کرتا ہے ، تو کوئی جاگیر دار، وڈیرہ، سردار، نواب بن کر اپنی رعایا کو پیار محبت کے ساتھ لوٹتا ہے تو کوئی تاجر بن کر عوام پر دگنی قیمت میں اشیاءفروخت کرتا ہے۔ تو کوئی ڈاکٹر بن کر مہنگے فیس کے ساتھ مریضوں کو لوٹنے کی کوشش میں ہے۔ یہ تو اچھا ہے کہ ہر شعبہ زندگی میں مخلص اور عوام کی خدمت کرنے والے لوگوں کی بھی کمی نہیں اور ان ہی کے دم سے زندگی کے معاملات بخوبی سر انجام پارہے ہیں۔دولت کے ہوس اور جمع کرنے کے شوق کی کوئی حد نہیں ،اس حوالے سے شیخ سعدی نے کیا خوب فرمایا ہے کہ” توکل سیکھنا ہے توپرندوں سے سیکھو“کہ وہ جب شام کو گھر جاتے ہیں تو ان کے چونچ میں کل کےلئے کوئی دانا نہیں ہوتا ہے۔“ پرندہ کل کا نہیں آج کا سوچتا ہے اور اپنی ضرورت پورا کرنے پر دوسرے پرندے کو چھوڑتا ہے اور خالی چونچ لیکر چلا جاتا ہے اپنی چونچ میں کل کےلئے دانا نہیں لے جاتا۔

 کیونکہ اس کو یقین ہوتا ہے آج کی طرح کل بھی اس کو اسی طرح بلکہ اس سے بہتر رزق ملے گا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے سرمایہ دار اور مالدار شخصیات کو ملک کی ترقی و خوشحالی کےلئے اپنے سرمائے کو ملک و قوم پر خرچ کرنا چاہئے کیونکہ بطور مسلمان بھی یہ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم ایک دوسرے کے کام آئےںاور اگر پاکستان کے یہ سرمایہ دار لوگ پاکستان کےلئے کچھ بھی نہ کر پائیں تواللہ تعالی پاکستان کو اچھے سیاستدان فراہم کرے جو ملک و قوم کےلئے محب وطن ہوں۔ آج وطن عزیز کی معیشت تباہی کے جس دہانے پر پہنچ چکی ہے ان مالیاتی اداروں کے شکنجے سے نکلنے کا واحد راستہ یہی ہے ،دولت اور ثروت بری چیز نہیں بلکہ یہ تو کئی طرح سے نجات کا ذریعہ ہے اگر اس کو دوسروں کی بھلائی اور خدمت میں استعمال کیا جائے اور اگر اسے محض اپنی تجوریوں کو بھرنے کیلئے استعمال کیا جائے تو بلا شبہ اس کی پکڑ ہوگی۔انسان سو برس کا سامان جوڑتا ہے اور اسے پل بھر کی خبر نہیں ہوتی کہ وہ یہاں رہے گا کہ نہیں۔اگر بحیثیت قوم ہم اس نکتے کو سمجھ جائیں تو ہمارے ڈھیر سارے معاملات سلجھ جائیں گے۔