میںدردکے قصبے میں بڑی دیرسے پہنچا

ہم اکثر اوقات اپنے اردگر د ،مختلف محفلوں میںاور دوران سفر حیران کن گفتگو سنتے رہتے ہیں جس میں ملکی اور غیر ملکی حالات اکثر اوقات شامل ہوتے ہیں‘ اسی طرح راقم بھی ایک محفل میں بیٹھا ہوا تھا کہ کچھ لوگ عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے بارے میں گفت و شنید کررہے تھے کہ”عالمی بینک کا کیا کام ہے کہ وہ کہتا ہے کہ پاکستان میں پٹرول کے دام بڑھا ﺅ اور آئی ایم ایف بجلی کے داموں میں اضافے کے پیچھے پڑا ہوا ہے “یعنی ان کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ آخر عالمی بینک اور آئی ایم ایف کس باغ کی مولی ہیں جو ہمارے اندرونی معاملات میں ہمیں آرڈرز دیتے ہیں‘اصل میں محب وطن پاکستانی ان اداروں کے بارے میں ایسا سوچنے کا بجا طور پر حق رکھتے ہیں کیونکہ پاکستان ایک آزاد مملکت ہے اس کا اپنا آئین،اپنا نظام قانون ہے ‘پھر یہ عالمی بینک اور آئی ایم ایف ہمارے اندرونی معاملات میں کیوں دخل اندازی کرتے ہیں؟اصل میں ہمارے ان پاکستانی بھائیوں کو عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے بارے میںزیادہ آگاہی نہیں ہے‘ جس کی وجہ سے یہ معاملہ ان کی سمجھ سے بالا تر ہے۔دوسری عالمی جنگ (1939-45) کے آخری مراحل میں یہ اندازہ ہو چلا تھا کہ جرمنی ،جاپان اور اٹلی کی شکست قریب ہے‘جبکہ دوسری جانب اتحادی ملکوں یعنی امریکہ، روس، برطانیہ اور چین کو فتح کا یقین ہوگیا تھا‘اس جنگ عظیم میں امریکہ واحد خوش قسمت ملک تھا جو کہ اس جنگ کی تباہی سے محفوظ رہا‘جنگ کے خاتمے پر اتحادی ممالک نے اقوام متحدہ کا ادارہ قائم کرنے پر غور و خوض شروع کیا جولائی 1944 ءمیں چاروں اتحادی ملکوں کی ایک کانفرنس امریکہ کے شہربریٹن ووڈس میں منعقد ہوئی جس میں انہوں نے یہ فیصلہ بھی کیا کہ مستقبل میں تمام ممالک اس طرح منظم ہو جائیں کہ ہر ملک ایک اجتماعی نظم اور ڈسپلن کا پابند ہو جائے چنانچہ سیاسی اجتماعی ادارے یعنی اقوام متحدہ کے ساتھ ساتھ اقتصادی میدان میں بھی ایک عالمی حکومت کی سی صورت پیدا ہو جائے‘ جس کےلئے دو عدد مالیاتی اداروں کے قیام کا فیصلہ کیا گیاجن میں سے ایک کا نام٬٬بین الاقوامی بینک برائے تعمیرِ نو و ترقی (انٹر نیشنل بینک فار دی کنسٹرکشن اینڈ ڈویلپمنٹ)رکھا گیا جس کا مقصد یہ تھا کہ جو یورپی اور ایشیائی ممالک جنگ سے متاثر ہوئے ہیں‘ ان میں تعمیرِ نو کا عمل شروع کیا جائے،وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس ادارے کا نام مختصراً عالمی بینک (ورلڈ بینک)بن گیا‘حالانکہ قانونی طور پر اب بھی اس کا پہلے والا مکمل نام لیا جاتا ہے‘جبکہ دوسرے ادارے کا نام ٬٬بین الاقوامی ذخیرئہ نقدیات(انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ یا آئی ایم ایف)رکھا گیا ‘ان اداروں کے قیام کا مقصد بنیادی طور پر یہ تھا کہ مختلف ممالک دونوں اداروں کے رکن بن جائیںگے،ہر ملک اپنی اقتصادی حیثیت کے مطابق رکنیت فیس دیا کرے گا اوراس رقم کی مناسبت سے ہی اس کے ووٹ دینے کی حیثیت متعین ہو گی‘یہ دونوں ادارے عملاً 1946 ءمیں قائم ہوئے‘ عالمی بینک کا سربراہ”صدر“کہلایا‘ابتداءہی میں طے ہو گیا کہ عالمی بینک کا صدر امریکہ سے لیا جائے گاجبکہ آئی ایم ایف کا سربراہ ”منیجنگ ڈائریکٹر(ایم ڈی)“کہلایا اوریہ طے کر لیا گیا کہ آئی ایم ایف کا ”ایم ڈی‘ ‘یورپ سے ہو گا دونوں اداروں کے صدر دفاتر امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں واقع ہیں‘ ان کی عمارتیں گو کہ الگ الگ ہیں لیکن دونوں اداروں کا سالانہ اجلاس مشترکہ ہوتا ہے ابتداءمیں ان اداروں کے رکن ممالک کی تعداد کم تھی لیکن پھر پچاس، ساٹھ اور ستر کی دہائی میں بہت سے ممالک برطانیہ ، امریکہ اور فرانس کے تسلط سے آزاد ہوئے اور ان اداروں کے رکن بن گئے۔روس اوراس کے حلیف ممالک ،اقوام متحدہ میں تو شامل ہوئے لیکن آئی ایم ایف میں شامل نہ ہوئے اس وقت آئی ایم ایف کے رکن ممالک کی تعداد تقریباً189 سے زیادہ ہے‘عالمی بینک ،جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ایک بین الاقوامی بینک ہے یہ بینک اپنے رکن ممالک کو قرضے فراہم کرتا ہے بشرطیکہ اس قرضے کا تعلق ترقیاتی عمل سے ہو جبکہ آئی ایم ایف ، دنیا بھر کے ملکوں کے مرکزی بینکوں (اسٹیٹ بینکوں )کا مرکزی بینک ہے جسے ہم انگریزی میں ”سپر سینٹرل بینک“کہہ سکتے ہیں گو کہ یہ خود بینک نہیں ہے ۔جبکہ آئی ایم ایف کا تعلق اپنے رکن ممالک کی ترقیات یا کسی متعین منصوبے سے نہیں ہوتا بلکہ ان ملکوں کی نقدیاتی یعنی کرنسی سے متعلق دشواریوں سے ہوتا ہے ‘ان دونوں عالمی اداروں کی حیثیت ایک طرح سے سرکاری ہو چکی ہے‘۔

 عالمی بینک صرف ترقیاتی مقاصد کےلئے اپنے رکن ممالک کو قرضے دیتا ہے یہ قرضے بالعموم طویل المیعاد(مثلاً بیس سال،پچیس سال) ہوتے ہیں ‘جنگ سے متاثرہ یورپی ملکوں نے عالمی بینک سے فائدہ اٹھایا اپنی تعمیر نو کی اور اقتصادی ترقی بھی بحال کی جس کی کامیاب ترین مثال جرمنی ہے اس کے علاوہ ایک چھوٹا لیکن دولت مند ملک ہالینڈ (نیدر لینڈ) ہے‘ترقی پذیر ممالک عام طور پر عالمی بینک سے مستفید ہوئے چونکہ عالمی بینک جو قرضہ دیتا تھا ،وہ زرمبادلہ یعنی ڈالر کی شکل میں ہوتا تھا اس طرح یہ پس ماندہ ممالک اپنی ترقیات کےلئے دیگر ملکوں سے بھاری مشینری بلکہ پوری کی پوری فیکٹر ی کا سامان بآسانی خرید سکتے تھے اور زرِ مبادلہ کی تنگی مسئلہ نہیں بنتی تھی۔ بھارت،پاکستان اور بنگلہ دیش (سابق مشرقی پاکستان)کی اقتصادی ترقی میںبھی عالمی بینک نے ایک اہم کردار ادا کیا‘ عام طور پر عالمی بینک کی امداد کسی ایک خاص اور یقینی منصوبے کی تکمیل کےلئے ہوتی ہے اور عالمی بینک جائزہ لیتا رہتا ہے کہ اس کے دئیے ہوئے قرضوں سے قرض لینے والے رکن ممالک کس حد تک واقعی مستفید ہو سکے ہیں۔1960 ءکے عشرے میں عالمی بینک اپنے دیگر رکن ممالک کو پاکستان کی مثال پیش کرتا تھا کہ دیکھئے اس ملک نے حاصل کردہ قرضوں کو کتنی بہتری سے استعمال کیا‘پاکستان ایک مثالی ملک(ماڈل)کے طور پر پیش کیا جاتا تھا ‘ظاہر ہے کہ عالمی بینک کاروباری اصولوں پر عمل کرتا ہے قرض دینے سے قبل اچھی طرح ٹھوک بجا کردیکھ لیتا ہے کہ کس مقصد کےلئے قرض حاصل کیا جا رہاہے اور قرض لینے والا ملک کب اس لائق ہوگا کہ باقی قرض ادا کرسکے گا اور قرض لینے والا ملک قرض ادا کرنے کے بعد اپنی اقتصادی حالت کو بہتر بھی بنا سکے گا؟ یعنی مالیات کے فنی اصولوں کے مطابق ماہرین یہ تجزیہ کرتے ہیں کہ متعلقہ منصوبہ کس حدتک عمل پذیر ہے اور کتنا منافع بخش ہے‘آئی ایم ایف کا معاملہ قدرے مختلف ہے یہ کسی ترقیاتی منصوبے کےلئے قرض نہیں دیتا بلکہ رکن ممالک کی مد میں مالیاتی اور نقدیاتی صورتحال کا جائزہ لیتا رہتا ہے اور اس کی درستگی کےلئے احکام بھی جاری کرتا ہے کیونکہ یہ اس کے فرائض کا ایک جزو بھی ہے جس طرح کسی ملک کا مرکزی بینک ،اندرون ملک سارے مالیاتی اور نقدیاتی امور پر نظر رکھتا ہے اور اپنے ملک کے بینکوں کو احکامات بھی جاری کرتا ہے جن کی پابندی بینکوں کےلئے ضروری ہوتی ہے ورنہ مرکزی بینک ناکارہ یا ناقص بینکوں کو بند بھی کر سکتا ہے جو کام مرکزی بینک خود اپنے ہاتھوں سے نہیں کرنا چاہتا ان کی سفارش حکومت کو پیش کردیتا ہے کہ آپ ملکی مفادات میں ان مشوروں کے مطابق اپنی پالیسی تشکیل دیں اور اپنے احکامات صادر کریں تاکہ ملک بحیثیت مجموعی بہتر طور پر کام کر سکے اسی طرح آئی ایم ایف اپنے رکن ممالک کو سفارش کرتا ہے بلکہ حکم دیتا ہے اور مختلف قسم کی شرائط عائد کرتا ہے ‘اب بعض قارئین یہ سوچ رہے ہوںگے کہ اگر اتنی سختیاں (شرائط) ہیں تو آخر آئی ایم ایف سے قرض لیا ہی کیوں جاتا ہے کہ اس کے احکامات ماننے پر مجبور ہوں ‘ جس کی وجہ یہ ہے کہ بین الاقوامی نقدیاتی ادارہ (آئی ایم ایف)بہت کم شرح سود پر قرضے دیتا ہے یعنی تقریباً7 فیصد سالانہ اس شرح سود پر کوئی اور بین الاقوامی بینک قرض دینے کےلئے تیار نہیں ہے چونکہ متعلقہ رکن ملک اپنے بحرانوں پر قابو پانے میں ناکام ہوتا ہے اور سستا قرض لینے پر مجبور ہوتا ہے اور ہم آئی ایم ایف سے قرض مانگتے ہیں جو وہ بمشکل دیتا ہے اس لئے اگر کوئی ملک سالہا سال سے بحران میں مبتلا ہے اور وہ ان پر قابو نہیں پا سکتا تو پھر مجبور اً آئی ایم ایف سے قرض لیتا ہے اور بار بار لیتا ہے‘آئی ایم ایف قرض اور فنڈ ز دینے کے ساتھ ساتھ رکن ملکوں کے مالیاتی اور نقدیاتی امور کی نگرانی بھی کرتاہے اس لئے وہ رکن ممالک کو مشورے دیتا ہے کہ فلاں فلاں مد میں آپ صارف کم کریں مثلاً زراعت میں زرِ اعانت(سبسڈی)یا کسی اور مد میں کسی رعایت کا خاتمہ،آئی ایم ایف رکن ملک کو یہ بھی بتاتا ہے کہ آپ اپنے بجٹ کے خسارے کو پورا کرنے کےلئے فلاں فلاں طریقوں سے اضافی رقوم حاصل کریں تاکہ بجٹ کے خسارے پر قابو پا سکیں۔ مثلاًآپ اپنے ملک کے اندر بجلی کی شرحوں میں اتنا اضافہ کر سکتے ہیں یا آپ کو کرنا چاہئے اسی طرح گیس ،ٹیلی فون جیسی خدمات کی شرح میں اضافہ کریں تاکہ مزید وسائل آپ کو فراہم کئے جا سکیں۔

ہم سب جانتے ہیں کہ سرکاری ادارے اور نیم سرکاری ادارے دونوں ضرورت سے زیادہ عملہ رکھتے ہیں جن کی کارکردگی اطمینان بخش نہیں ہوتی اور طرح طرح کے غیرضروری مصارف کئے جاتے ہیں جو ایک کاروباری ادارہ نہیں کرتا ہم ان سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کی اصلاح تو نہیں کر سکتے لیکن جب ہم پر شرائط عائد کی جاتی ہیں کہ کفایت شعاری کرو ورنہ اپنی آمدنی بڑھاو¾تو پھر آئی ایم ایف پرالزام دھرے جاتے ہیں اسی طرح ایک مدت سے آئی ایم ایف اور دیگر بین الاقوامی ادارے حکومت پاکستان سے یہ مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ آخر زرعی شعبہ جو ملکی پیداوار میں سب سے بڑا شعبہ ہے یعنی اس کا تناسب قومی پیداوار میں 24 فیصد کے قریب ہے اس شعبے سے حاصل ہونے والی آمدنی پر ٹیکس کیوں نہیں عائد کیا جاتا۔آئی ایم ایف اور عالمی بینک دونوں نے اپنی ٹیمیں اور نمائندے پاکستان میں یا کسی اور قرض لینے والے ملک میں متعین کر رکھے ہیں جو حکومت کے روز مرہ مالی معاملات اور اس کی اقتصادی پالیسی پر نظر رکھتے ہیں اور آئی ایم ایف کو باخبر رکھتے ہیں۔آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے صدر دفاتر امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں واقع ہیں اور ان دونوں اداروں کو سالانہ زیادہ فیس دینے والوں میںامریکہ سرفہرست ہے اس لئے لا محالہ اپنی مرضی اور اپنی پالیسی ان دونوں اداروں پر مسلط کرتا ہے جس کی ایک مثال یہ ہے کہ پاکستان نے مئی 1998 ءمیں ایٹمی دھماکے کے بعد جب امریکہ نے ہندوستان اور پاکستان دونوں پر اقتصادی پابندیاں عائد کیں تو آئی ایم ایف اور عالمی بینک نے بھی اپنی آنکھیں بدل لیں اور رویہ مزید سخت کر دیا۔ایک عام تاثریہ ہے کہ عالمی بینک اور آئی ایم ایف پر امریکہ کی اجارہ داری ہے یہ تاثر بڑی حد تک درست ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر امریکہ اقتصادی لحاظ سے بہتر تھا‘ عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے دفاتر کے قیام کےلئے امریکہ ہی نے مفت زمین پیش کیں بلکہ تعمیراتی مصارف کا بڑاحصہ بھی برداشت کیا چنانچہ امریکہ کےلئے یہ ممکن ہوا کہ وہ ان اداروں کی سوچ اور فیصلوں پر اثر انداز ہو سکے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ دونوں عالمی ادارے اپنے مقاصد پورے کرنے میں کامیاب ہوئے؟ اس بارے میں ماہرین کو شکوک و شبہات ہیں بہت سے ماہرین کی رائے میں کم از کم اقتصادی میدان میں خصوصاً آئی ایم ایف اپنے بنیادی مقاصد حاصل نہیں کرسکا کہ ملکوں کی کرنسی درست ہوجائے اور آزادانہ تجارت ہو۔جیسا کہ راقم پہلے عرض کر چکا ہے کہ عالمی بینک کے بعض ذیلی ادارے بھی کام کرتے ہیں ان میں: بین الاقوامی انجمن ترقیات(انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ ایسوسی ایشن)یہ ادارہ تقریباً بغیر کسی سود کے قرض دیتا ہے یعنی شرح سود،دو یا تین فیصد ہوتا ہے جو کہ عام طور پر انتظامی مصارف (ایڈمنسٹریٹو ایکس پینسز)کےلئے درکار ہوتا ہے لیکن یہ ادارہ چھوٹے قرضے دیتا ہے۔ترقیاتی منصوبوں پر ناقدانہ نظر ڈالنے اور فنی طور پر کسی منصوبے کی عمل پذیری اور متوقع منافع کے حصول پر نظر رکھنے کےلئے ایک ماہرانہ تربیتی ادارہ بھی قائم ہے جسے اقتصادی ترقی کا ادارہ،(اکنامک ڈویلپمنٹ انسٹی ٹیوٹ) کہتے ہیں۔مختلف ممالک کے ترقیاتی بینک اور حکومتیں اپنے افسران کو تربیت کےلئے یہاں بھیجتی ہیں اور تمام مصارف یہ ادارہ برداشت کرتا ہے یعنی یہ بھی امداد کی ایک شکل ہے عالمی بینک،آئی ایم ایف اور ان دو اداروں کے علاوہ دیگر بین الاقوامی ادارے بھی قرض دینے والوں میں شامل ہیںمثلاً ایشیائی ترقیاتی بینک ، اسلامی ترقیاتی بینک وغیرہ۔ یقینا مندرجہ بالا تجزیہ اور توضیحات سے معزز قارئین پریہ بات واضح ہو گئی ہو گی کہ آئی ایم ایف اور عالمی بینک کیا چیز ہیں۔