بھارتی مسلمان شاعر راحت اندوری گزشتہ روز خالق حقیقی سے جا ملے ‘ ایک دو روز قبل ہی انہیں کورونا ہوا تھا انہوں نے ٹویٹر پر اپنی دعائے صحت کی اپیل بھی کی مگر اگلے دن وہ اس جہان فانی سے کوچ کرگئے ‘راحت سے میرا تعارف امریکہ میں مشاعروں کے دوران ہوا اس سے قبل محسن بھوپالی نے کراچی میں ایک عالمی مشاعرہ منعقد کرایا تھا اس میں چند بھارتی شعراءبھی مدعو تھے انہی میں راحت اندوری بھی شامل تھے اور میں نے انہیں پہلی بار سنا تھا مشاعرے میں ان کے پڑھنے کے مخصوص سٹائل سے وہ مشاعرہ لوٹنے میں کامیاب ہوگئے تھے اردو مرکز اور علی گڑھ ایلومنائی والوں نے مجھے بھی امریکہ میں مدعو کیا جس کے روح رواں نیئر آپا اور ڈاکٹر عبداللہ اور ان کی ٹیم کے لوگ شامل تھے بھارت سے مزاج گو شاعر خواہ مخواہ حیدر آبادی اور راحت اندوری جبکہ پاکستان سے(کراچی سے) ذکیہ غزل اور لاہور سے مجھے دعوت دی گئی تھے پہلا مشاعرہ بوسٹن میں تھا ہمیں بوسٹن کے علی گڑھ ایلومنائی کے متحرک کارکن علی رضوی نے ائرپورٹ سے لیا اور اپنی رہائش گاہ پر لے گیا راحت اندوری اور خواہ مخواہ حیدر آبادی سے وہیں ملاقات ہوئی یوں امریکہ کے اڑھائی ماہ میں ہم ساتھ ساتھ رہے آخری ہفتے میں راحت اندوری لاس اینجلس میں منعقدہ مشاعرے میں نہ جا سکے کہ ان کی واپسی پہلے سے طے شدہ تھی ان ایام میں ہم تقریباً رات دن رہے وہاں مجھے راحت اندوری کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا راحت مشاعرے کے کامیاب شعراءمیں شامل کئے جاتے ہیں وہ بلند آہنگ شاعر تھے دلچسپ گفتگو‘ واقعات اور طنز بھی ساتھ ساتھ چلاتے تھے۔
شعر سے قبل دیگر بھارتی شعراءکی طرح تمہید باندھنااور پھر شعر سے قبل سننے والوں کو متوجہ کرنے میں بھی وہ یدطولیٰ رکھتے تھے فی البدیہہ شعر کہنے میں بھی انہیں خاص ملکہ حاصل تھا میری ان سے شاعری اور خیال پر بحث بھی جاری رہتی سب سے اچھی گفتگو وہ شام کے بعد کیا کرتے تھے خواہ مخواہ حیدرآبادی عمر رسیدہ ہونے کے علاوہ نہایت شریف النفس‘ کم گو اور تہجد گزار شاعر تھے عموماً ہوٹلوں میں دو دو مہمان اکٹھے ایک کمرے میں رکھے جاتے ہیں دونوں انڈین ہونے کے سبب ایک کمرے میں ٹھہرتے ‘ذکیہ غزل عموماً میزبان میں سے کسی کی فیملی کے ساتھ ٹھہرائی جاتیں سو میں ان ایام میں اکثر ہوٹل میں تنہا ٹھہرنے کی سہولت سے ہمکنار ہوتا راحت کے ہمسفر بلکہ روم میٹ تہجد گزار آدمی تھے ہر صبح ناشتے کی میز پر خواہ مخواہ راحت صاحب کی شکایات بیان کرتے کہ وہ خراٹے اتنی زور سے لیتے ہیں کہ کمرے میں کوئی اور شخص سو نہیں سکتا ۔
ایک صبح خواہ مخواہ بتایا(ذکیہ غزل بھی موجود تھیں)یارشمار صاحب آج تو حد ہی ہوگئی رات دو بجے راحت اندوری نے مجھے جگایا میں اچانک ڈر کے اٹھ بیٹھا پھر راحت بھائی فرمانے لگے‘ غوث بھائی ایک بات پوچھنی تھی آپ سے‘ (خواہ مخواہ صاحب کا اصل نام غلام غوث تھا) جی فرمایئے راحت بھائی کیا بات ہے‘ ابے یار! میں تو حیران ہوں‘ ادھر ہندوستان حیدرآباد میں تو تمہیں کوئی جانتا تک نہیں نہ ہی میں نے کسی مشاعرے میں دیکھا ہے؟ لیکن ادھر امریکہ میں تم بڑے مشہور ہو لوگ فرمائشیں کرتے ہیں؟ وجہ کیا ہے؟ اب بتاﺅ! میں انہیں کیا جواب دوں؟ بھلا یہ بات آدھی رات کو جگا کر پوچھنے کی تھی‘ یار مجھے تو الگ کمرہ دلواﺅ بھئی میں ان کے ساتھ نہیں ٹھہر سکتا مگر پھر انہیں راحت کے ساتھ ٹھہرا دیا جاتا راحت اندوری بہت اچھے انسان تھے رات اگر کوئی غصہ بھی دکھایا تو اگلی صبح بھول گئے میں نے ان کے اشعار پر کچھ تنقید کی کہ یہ تو فلاں کا شعر ہے وغیرہ وغیرہ تو بھی ہنس کر ٹال جاتے‘ الوداعی ملاقات میں کہا یار بمبئی آﺅ میں پنجابی میں نہیں لکھتا وہاں فلموں میں پنجابی کابڑا سکوپ ہے‘ خود راحت اندوری نے کئی یادگار فلموں کے گیت لکھے‘ باقی ان کی شاعری پر الگ لکھوں گا فی الوقت انکے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
جو آج صاحب مسند ہیں کل نہیں ہونگے
کرائے دار ہیں ذاتی مکان تھوڑی ہے
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے