چھوٹی چھوٹی باتیں

(روزنامہ آج میں شائع ہونےوالے کالم جو اپنی اشاعت پر قارئین نے بے حد پسند کئے، ان سدا بہار کالموں سے انتخاب کا سلسلہ قارئین کی دلچسپی کےلئے شروع کیا گیا ہے‘ ان کالموں میں اعدادوشمار اور حالات کالم کی تحریر کے وقت کی عکاسی کرتے ہیں).................
 انسان عادات کا غلام بن جائے تو اسکی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔ہمیں اچھی طرح خبر ہوتی ہے کہ ہماری کون سی عادت ہمیں خراب کر رہی ہے مگر ہم نظر انداز کرتے چلے جاتے ہیں اور یوں وہ عادت پختہ تر ہو کر ہمارے لئے باعث نقصان ثابت ہوتی ہے۔ہم بہت کم دوسروں سے راضی ہوتے ہیں۔دوسروںپر تنقید تو ہم اپنا بنیادی حق سمجھتے ہیں ‘دوسروں سے شکایات تو ہر وقت ہمارے لبوں پر رہتی ہیں۔غصہ کس کو نہیں آتا۔بعض اوقات دوسروں کی حماقت اور نادانی پر بھی کڑھنا پڑتاہے شدیداذیت ہوتی ہے اور ہم بے بس ہوتے ہیں لیکن کیا غصہ کرنے سے کوئی غلط کام درست ہو سکتا ہے؟ایک بچے کو بھی اس کی غلطی پر ڈانٹ دیںاور وہ بھی سب کے سامنے تو اس کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے۔زندگی میں چھوٹی چھوٹی اور عام باتیں بھی تفکر طلب ہوسکتی ہیں۔ہمارے ایک دوست ہمیشہ غصے میں رہتے ہیں‘ ایک روز ہم نے ان سے ہر وقت غصے میں رہنے کے اسباب دریافت کئے تو پتہ چلا وہ کسی سے بھی خوش نہیں ‘ہر وقت ذراذرا سی بات پر سیخ پا ہو جاتے ہیں۔اگر انکے گھر کی ملازمہ ان کی شرٹ پریس کر کے ہینگر پر لٹکا دے اور بے دھیانی میں وہ اسے پہنتے ہوئے دیکھیں کہ اس کے بٹن نہیں کھولے گئے تو بھی انہیں بہت غصہ آتا ہے۔کہنے لگے آج صبح ہی میرا موڈ اس وقت خراب ہو گیاجب میری گردن شرٹ میں تھی اور میں شرٹ کے بٹن کھول رہا تھا۔کم بخت استری کرنے والی خاتون نے استری کے بعد بٹن نہیں کھولے اور یونہی ہینگر پر لٹکا گئی ۔ہم نے کہا پیارے اگر آپ قمیص پہننے سے قبل بٹن چیک کرنے کی عادت اپنا لیں تو ملازمہ پر غصہ نہیں آئےگامگر وہ بحث پر اتر آتے ہیں کہ آخر ملازمہ کس مرض کی دوا ہے۔ہمارے ایک پروفیسر بتا رہے تھے کہ مجھے غصہ سپیڈ بریکرز پر آتا ہے۔یہ جو سٹیل کے سپیڈ بریکرز سڑکوں پر جگہ جگہ دکھائی دیتے ہیں اس سے گاڑیوں کے ٹائروں کا کباڑہ ہو جاتا ہے۔پہلے سڑک پر سیمنٹ کے سپیڈ بریکر بنائے جاتے تھے اب تو لوہے کے نوکدار کیلوں والے سپیڈ بریکر بنائے جاتے ہیں۔یوں لگتا ہے جیسے یہ سوچی سمجھی سکیم کے تحت بنائے جاتے ہیںتاکہ گاڑیوں کے ٹائرجلد خراب ہوں اور لوگ نئے ٹائر خرید یں۔یہ ٹائر والوں اور سپیڈ بریکرز بنانے والوں کی ملی بھگت ہے۔ٹریفک سے متعلق تو ہماری ایسی عادات پختہ ہو چکی ہیںکہ لوگوںکو کنٹرول کرنا مشکل ہے۔