غور کی ضرورت 

(روزنامہ آج میں شائع ہونے والے کالم جو اپنی اشاعت پر قارئین نے بے حد پسند کئے، ان سدا بہار کالموں سے انتخاب کا سلسلہ قارئین کی دلچسپی کے لئے شروع کیا گیا ہے‘ ان کالموں میں اعدادوشمار اور حالات کالم کی تحریر کے وقت کی عکاسی کرتے ہیں).................
دو قاضی وطن چھوڑنے کے بعد الگ الگ جگہوں پر پہنچے۔ ایک روز مغرب میں پہنچنے والے قاضی کی ملاقات مشرق میں جانیوالے قاضی سے ہوئی تو دونوں اپنی اپنی مصروفیات کا حال سنانے لگے۔ مغربی قاضی بولا! ”بہت اچھی گزر رہی ہے‘ صبح گیارہ بجے تک منصفی کا سارا کام پورا ہوجاتا ہے‘ ہر شخص کے مقدمے کا فیصلہ ایک ہی دن میں ہوجاتا ہے‘ آدھے گھنٹے سے زیادہ ہم لوگوں کو کام نہیں کرنا پڑتا‘ تمہارے ہاں کیا صورتحال ہے؟مشرقی قاضی نے جواب دیا”صبح آٹھ بجے عدالت کاکام شروع ہوتا ہے تو ختم ہوتے ہوتے رات کے دس گیارہ بج جاتے ہیں‘ مقدمے کا فیصلہ ہونے میں دس بیس سال لگ جاتے ہیں‘ مغربی قاضی نے پوچھا، تعجب ہے تمہیں اتنا کام کرنا پڑتا ہے‘اصل میں ہمارے ہاں تاریخ پر تاریخ دینے کا رواج ہے“مشرقی قاضی نے جواب دیا‘ یہ لطیفہ ہمیں واپڈا کے ایک میٹر ریڈر نے سنایا جو اگلے روز ہمارے ساتھ کار واشنگ سٹینڈ پر اپنی کار سروس کرانے آیا تھا‘ میں نے اسے کہا منصفوں کے بارے میں ذرا دھیان سے گفتگو کرنی چاہئے‘وہ بولا بزرگو! میں واپڈا میں ہوں مجھے پتہ ہے میں نوکری کیسے کررہا ہوں؟ یہ لطیفے اکھان‘ تمثیلیں اور کسی بھی شعبے کے بارے میں تاثر یونہی نہیں بن جاتا‘ اب دیکھئے ناں میں نے اپنا شعبہ بتادیا ہے آپ بتائیں کہ میٹر ریڈروں کے بارے میں عوام کا تاثر کیا ہے؟ لوگ میٹر ریڈر کو عموماً راشی سمجھتے ہیں حالانکہ میں نے ایک دھیلے کی رشوت کہیں نہیں لی مگر لوگ مجھے بھی اسی کیٹگری میں شمارکرتے ہیں‘ میں تو یونہی کار خشک کرنیوالے شیدے کو لطیفہ سنا رہا تھا‘ اصل میں یہ میرا محلے دار بھی ہے‘ پھر وہ بولا ویسے میں ذاتی طورپر نظام پر کڑھتا ہوں‘سچی بات یہ ہے کہ اب ایمانداری سے زندگی بسر کرنا مشکل ہوچکا ہے لوگ جب حالات سے تنگ آتے ہیں تو منفی راستوں پر چل نکلتے ہیں‘ ہماری حکومت میں اتنا دم خم نہیں ہے کہ جرائم پر قابو پاسکے۔ ہماری عدالتوں میں بھی کئی کئی برس مقدمات کے فیصلے نہیں ہوتے۔ ججز کی تعداد کم ہوسکتی ہے مگر پولیس والے کیس ہی ایسا بناتے ہیں کہ مجرم بری ہوجاتے ہیں‘ابھی چند روز قبل آپ نے اخبار میں پڑھاہوگا‘سیالکوٹ کی ایک ماں نے اپنے بیٹے کے قاتل کو ہلاک کرکے بیٹے کا بدلہ لیا ہے‘ کیونکہ قاتل سزا ملنے کے باوجود بڑی عدالت سے بری ہوگیا تھا‘ کہیں نہ کہیں نظام میں خامیاں ہیں تو مجرم بری ہوتے ہیں‘اس میں عدالت کا قصور شاید نہ ہو کہ قانون تو ثبوت مانگتا ہے اگر کیس ہی ایسا بنایاگیاہو تو وہاں وکیل یا جج کیا کرے‘ ایک بار اوپر سے بھی تبدیلی کرکے دیکھیں شخصیت بھی ایک کرنسی ہے‘اگر کرنسی کی قدروقیمت نہ ہو تو فائدہ‘شیر شاہ سوری کی شخصیت ایسی تھی کہ اس کے دور میں چڑیا پر نہیں مار سکتی تھی‘ اس وقت پنجاب میں جرائم کتنے بڑھ گئے ہیں‘اوپر ذرا سخت اور بارعب حکمران ہو تو بیوروکریسی بھی چوکس رہتی ہے کہ کہیں بے عزتی سرعام نہ ہوجائے‘کیا خیال ہے آپ کا؟ میں نے کہا آپ کی باتوں سے اتفاق ہے مگرہمیں کچھ وقت تو حکمرانوں کو دینا ہوگا؟ پھر اٹھتے ہوئے وہ بولا”میری گاڑی تیار ہے چلتے چلتے یہ لطیفہ بھی سن لیں‘ ایک ماں اپنے شوہر کو بچے کی عادتوں کے بارے میں بتا رہی تھی‘ہمارابچہ بہت ذہین ہے جب یہ چلتا ہے تو ایسا لگتا ہے کوئی بڑا افسر چل رہا ہے‘ مطمئن اتنا ہے جیسے ملک کا وزیراعظم ہو‘ سمجھداراتنا جیسے قائد حزب اختلاف ہو۔شوہرنے کہا:اندازہ لگا کر یہ بھی بتادو کہ یہ جیل میں کتنا عرصہ رہیگا؟