آواز کی دنیا‘ پرانی یادیں

(روزنامہ آج میں شائع ہونے والے کالم جو اپنی اشاعت پر قارئین نے بے حد پسند کئے، ان سدا بہار کالموں سے انتخاب کا سلسلہ قارئین کی دلچسپی کے لئے شروع کیا گیا ہے‘ ان کالموں میں اعدادوشمار اور حالاثت کالم کی تحریر کے وقت کی عکاسی کرتے ہیں).................
ےہ ان دنوں کی بات ہے جب میںنیا نیا لاہور آیا تھااور میرا پہلا پڑاﺅ ریڈیو پاکستان تھا‘سنٹرل پروڈکشن ےونٹ میں بغیر کسی تعارف کے جب میں پروڈیوسر شاہد لطیف سے ملا تو انہوں نے کمال مہربانی فرمائی اور نئے گیت لکھنے کا پہلاٹاسک سونپ دیاپروڈیوسر صاحب کی وساطت سے پتہ چلاکہ ان دنوں خوشی کے کورس سانگ ریکارڈ کرنے کی ہدایات ملی ہیں۔اصل میںوہ ضیاءالحق کا دور تھا اور اسلام آباد سے ہدایت تھی کہ اداس کر دینے والے گیتوں کی بجائے خوشی کے کورس سانگ تیار کئے جائیںموضوعات میں چاند رات،خوشی ، بہا ر اور فصلوں کی کٹائی کے موقع پر دیہاتی لڑکیوں کے جذبات پر مبنی کورس گیت شامل تھے شاہد لطیف نے مجھے وہ موضوع دیا جس پر کسی شاعر نے گیت لکھنے کی حامی نہیں بھری تھی 
اور وہ گیت فصلوں کی کٹائی کا گیت تھابس یہی میرا پہلا امتحان تھا‘مجھے فصلوں کی کٹائی پر خوشی کے گیت کے علاوہ ایک چاند رات کا گیت بھی دیا گیاتھا پھریوں ہوا کہ رات بھر جاگ کر میںنے دونوں گیت مکمل کر لئے اگلے روز جب میں نے فصلوں کی کٹائی اور چاندنی رات کے گیت شاہدلطیف کو پیش کئے توانہوں نے حیرت اور خوشی کا ملا جلا اظہار کیامجھے باقاعدہ پروگرام منیجراعظم خان سے نیا شاعر کہہ کر ملوایا گیا۔میرے گیت انہیں بھی پسند آئے بعد میں سلیم خاں گمی سے بھی میری ملاقات کرائی گئی میرے فصلوں کی کٹائی والے گیت میں دیہاتی لڑکیوں کے جذبات کی عکاسی کی گئی تھی۔شاہد لطیف بہت خوش ہوئے‘بعد میں انہوںنے بتایا کہ باقی موضوعات پر تو قتیل 
شفائی ،بشیر منظر،امجد اسلام امجد اور دیگر شعراءنے گیت لکھ دئےے ہیں‘ فصلوں کے موضوع پر کسی نے بھی طبع آزمائی نہیں کی۔تم نے چیلنج سمجھ کر اسے تخلیق کیاےوں تم امتحان میں کامیاب ٹھہرے ‘ا ن گیتوں کے بعد سی پی یو کے دیگر پروڈیوسر ز سے بھی تعارف ہو گیا۔ان دنوںاعظم خان پروگرا م منیجر تھے۔سلیم خاںگمی جو خود پنجابی کے ناول نگار اور شاعری کا عمدہ ذوق رکھنے والے تخلیق کار تھے، سی پی یو کے سربراہ تھے‘خالد اصغر جو بعد ازاں سٹیشن ڈائریکٹر کے عہدے سے سبکدوش ہوئے پروڈیوسر تھے‘بعد میں ےہاں ستا ر سید،نسرین انجم بھٹی بھی رہے‘پھر توجب بھی سنٹرل پروڈکشن کوکسی موضوع کے حوالے سے فوری گیت کی ضرورت ہوتی تو خالداصغر وہیں بٹھا کر مجھ سے گیت لکھواتے‘ےہ وہ دور تھا جب ےہاں موسیقی کا بہترین کام ہو رہاتھا سبب یہ تھا کہ اس دور میں بڑے اہم موسیقار ےہاں دکھائی دیتے تھے استاد نذرحسین ‘وزیر افضل ‘مجاہد حسین ،بخشی وزیر،طالب حسین ،منظور حسین ،الطاف حسین،گلزار پریمی اور اسی 
طرح کے کئی اہم اور بڑے موسیقار ‘سی پی یو کے علاوہ ریڈیو پاکستان کے کیفے پر ایک کہکشاں کی صورت دکھائی دیتے اس وقت شاعروں میں سے بھی کئی اہم نام مشاعروں اور موسیقی کے پروگراموں میں شریک ہوتے تھے ‘ انہی کے گیت ،ڈرامے اور شاعری ریڈیو پر گونجتی تھی احمد راہی ،قتیل شفائی ،ظہیر کاشمیری،سلیم کاشر،منظور احمر،بشیرمنذر،رﺅف شیخ ،یزدانی جالندھری،طفیل ہوشیار پوری،منیر نیازی ،سیف زلفی ، اسلم کولسری،خالد احمد نجیب احمد ،مشتاق کنول اور کئی دیگر شعراءاکثروبیشتر ریڈیو کے پروگراموں میں شریک ہوتے تھے۔ مہناز ،افشاں ،حمیرا چنا،غلام عباس،پرویز مہدی ،شوکت علی، استاد حامد علی خاں ،ثریا خانم اور دیگر فنکاروں کے جھرمٹ سے ریڈیو آباد تھا`ریڈیو پر ایک دوروہ بھی آیا کہ پروڈیوسر کو روزانہ ایک گھنٹے کا پروگرام کرنا پڑتا ایسے ہی ایک پروگرام کا سکرپٹ میں بھی لکھتا تھا۔سکرپٹ کا معاوضہ پچیس روپے تھا۔سی پی یو پرفی گیت 75 روپے ملتے تھے ےہ رقم بڑی بابرکت ہوا کرتی تھی ےہ وہ دور تھا جب لاہور میں ایک سے بڑھ کر ایک مشہور ادیب شاعر ،موسیقار اور گلوکار موجود تھا۔