قومی پرچموں کی بہار

(روزنامہ آج میں شائع ہونے والے کالم جو اپنی اشاعت پر قارئین نے بے حد پسند کئے، ان سدا بہار کالموں سے انتخاب کا سلسلہ قارئین کی دلچسپی کے لئے شروع کیا گیا ہے‘ ان کالموں میں اعدادوشمار اور حالات کالم کی تحریر کے وقت کی عکاسی کرتے ہیں).................
 اگست آتے ہی ہر طرف قومی پرچموں کی بہار دکھائی دینے لگی ہے ۔سبز ہلالی پرچم دیکھتے ہی ہمارے دل میں ایک قوت اور تازگی کا سا احساس جنم لیتا ہے اگست میں ہرطرف آزادی کا جشن منایا جاتا ہے غور طلب بات یہ ہے کہ آزادی ہم نے انگریزو ں اور ہندوﺅں سے حاصل کی، یہ اپنی جگہ ایک بہت بڑی کامیابی اور نعمت ہے۔ اصل میں ہوا یہ کہ آزادی کے بعد ہمیں آزادی دلانے والے قائدین ہم سے ہمیشہ کےلئے جدا ہوگئے جسکی وجہ سے ہم اپنا نظام اب تک درست نہیں کر سکے ۔ اگر حکومتوں نے عام لوگوں کی بہتری کےلئے کچھ نہیں کیا تو اسکا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ ہماری یہ آزادی بُری ہو گئی ہے ان حکومتوں میں بھی ہمارے لوگ موجود رہے۔ہم ابھی تک سڑکیں بنا رہے ہیں‘ہر حکومت میں سڑکیں بنتی ہیںاور یہ جلد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہےں ۔ سڑکیں تو آغاز کے چند برسو ں میں اے کلاس بن جانی چاہئے تھیں ،کارخانے اور فیکٹریاں بھی لگائی جانی چاہئے تھیں۔بجلی پیدا کرنے کےلئے ذاتی و سائل سے کام چلایا جاتا ۔عام آدمی کی زندگی آسان بنانے کےلئے سعی نظر آتی۔ بات آزادی سے شروع ہوئی تھی، آزادی کا جشن منانا ہر محب وطن پاکستانی کا فرض ہے۔عظیم قومیں آزادی کے دن کو کبھی فراموش نہیں کرتیں ہم ابھی قوم نہیں بن سکے تو بھی جشن کا حق رکھتے ہیں۔ یکم اگست ہی سے آزادی کی سبز ہلالی جھنڈیوں کی بہار جھومنے لگتی ہے۔ اگلے روز پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف لینگویج اینڈ کلچر نے جشن آزادی کی بیٹھک سجائی۔پلاک اس وقت قلب لاہور کا دمکتا ستارہ بن چکا ہے کہ اس میں ادب و ثقافت کے حوالے سے، سب سے زیادہ تقریبات نظر آتی ہیں۔ بلا شبہ ا س کا سہرا ڈاکٹر صغرا صدف کے سر ہے ،وہ جب سے پلاک سے وابستہ ہوئی ہیں ،اپنی ہر دلعزیزی کے سبب ادارے کی بہتری میں پیش پیش رہی ہیں۔خود بھی شاعرہ اور کہانی کار ہیں،صدارت ممتاز دانشور عبدالرﺅف نے جبکہ کہانی خود ڈاکٹر صغرا صدف نے پیش کی ۔آزادی کی غزل خاکسار کی تھی اور نظم پروین سجل کی۔پلاک کے بھرے ہوئے ہال میں بیشتر پنجابی زبان و ادب کے شعراءاور باذوق افراد موجود تھے۔سبھی نے پنجابی کہانی کو بڑی توجہ سے سنا ،کہانی آزادی کے پس منظر میں لکھی گئی تھی جسے سراہا گیا۔عبدالرﺅف کی پنجابی پہلی بار سنی۔انہوں نے خوبصور ت انداز میں پنجابی کہانی کے پس منظر میں پاکستان کے روز و شب کا تجزیہ کرتے ہوئے بہت اچھی گفتگو کی۔۔اس دوران جمیل لوہار نے اپنے مخصوص انداز میں ملی نغمہ پیش کیا۔زمن عباس لونے والانوجوان سنگر ہے ،اسے بھی کمال آوازملی ہے۔اس نے بھی وطن کا گیت پیش کر کے حاضرین سے خوب داد لی۔آخر میں فیصل آباد سے آئے نوجوان فنکار احد علی خان نے راقم کا ترانہ ”رکھنا پاکستان، سلامت “ پیش کیا۔چند مصرعے آپ کی نذر:
رکھنا پاکستان سلامت ،... میرے وطن کی آن سلامت ...سندھ ،خیبر،پنجاب رہے مہران آباد...... تیرے کرم سے گلگت بلتستان آباد... سب کی مال و جان، سلامت ... رکھنا پاکستان سلامت ... دیس کے شہروں قصبوں صحراﺅں کی خیر... اسکے پہاڑوں ،وادیوں ،دریاﺅں کی خیر... گلشن کی ہرآن سلامت 
 رکھنا پاکستان سلامت 
احد علی خان کے بعد مشاعرے کا باقاعدہ آغاز کیا گیا۔میزبان پنجابی کے عمدہ شاعر خاقان حیدر غازی تھے،انہوں نے بہت ہی خوبصور ت نظمیں سنائیں ۔ڈاکٹر صغرا صدف نے پنجابی غزلوں سے سماںباندھ دیاآفتاب جاویدبہت اچھا لکھنے والے ہیں ان کے فکر انگیز ”گیان“ قارئین میں مقبول ہو رہے ہیں۔اسے ہم نثری نظم کے قریب کہہ سکتے ہیں۔اصل چیز تو خیال ہے اور ارفع خیال ،وہ جسے چاہے عطا کرے۔جاوید آفتاب کے گیان ہمیں تفکر پر مجبور کرتے ہیں....مشاعرے کے دیگر شعرا میں آغر ندیم، مشتاق قمر‘ پروین سجل اور احسان رانا شامل تھے۔جشن آزادی کے حوالے سے پلاک کا یہ بہت اچھا آغاز تھا۔