کھری باتیں

(روزنامہ آج میں شائع ہونے والے کالم جو اپنی اشاعت پر قارئین نے بے حد پسند کئے، ان سدا بہار کالموں سے انتخاب کا سلسلہ قارئین کی دلچسپی کے لئے شروع کیا گیا ہے‘ ان کالموں میں اعدادوشمار اور حالات کالم کی تحریر کے وقت کی عکاسی کرتے ہیں).................
زندگی کی اِس بھاگ دو ڑ میں اب ہمارے پاس وقت ہی نہیں کہ شب و روز کے چنگل سے خود کو چھڑوا کر کھلی فضاﺅں میں سانس لے سکیں ا ور آزادی سے زندگی اور اپنے بارے میں سوچ سکیں ۔ زندگی کا پہیہ اسی طرح چل رہا ہے۔ میرے لئے تویہ بھی ایک نعمت ہے کہ میں زور لگا کر بے مصرف ،مصروفیت کے حصار کو توڑ لیتا ہوں یا پھر یوں سمجھ لیں، مجھے جب کبھی فراغت ملتی ہے تو شہر کی اِس چکا چوند سے دُور مضافات کو نکل جاتا ہوں۔ ڈیرے کی چٹائیوں پر بیٹھ کر میری ،اکثر ان سچے ،کھرے اور مخلص افراد سے ملاقات ہوتی ہے جن میں اِس سائنسی دور میں بھی، ابھی اخلاص اور اقدار کی خوشبو پائی جاتی ہے۔ یہاں پر موجود ہر فرد کی اپنی الگ کہانی ہے جسے سنانے کے لئے وہ بے تاب ہوتے ہیں اور ہر کہانی میں ایسی نصیحتیں ہوتی ہیں کہ شاید ہی کہیں اور آپ کی اس سے شناسائی ہو یہ لوگ بے تکلف ہوتے ہیں اور سیدھی بغیر لگی لپٹی بات کرتے ہیں جھوٹ اور خوشامد کا ان کی باتوں میں شائبہ تک نہیں ہوتا اسی لئے تو یہاں گزارے ہوئے ہر لمحے کو میں قیمتی سمجھتا ہوں یہاں اکثر آس پاس کی آبادی کے غریب ‘ مسکین،سادہ دیہاتی اور کسان ،بزرگ بیٹھے نظر آتے ہیں۔ گاﺅں اور دیہات میں ایسے ڈیروں پر جانے کے لےے کسی اجازت کی ضرورت نہیں پڑتی ۔نا ہی ان کا کوئی دروازہ ہوتا ہے سو کوئی بھی جب جی چاہے وہاں جا سکتا ہے۔میں بھی ایک ایسی ہی بے تکلف محفل میں تھا۔جہاں دنیا جہان کے موضوع پر کوئی بھی بات کر سکتا ہے۔کسان اپنی فصلوں ،مویشیوں ،موسموں ،بھاﺅ تاﺅ سے لے کر کر سیاسی سماجی مسائل پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔میں بھی اپنی ذات کی بکل میں چپ چاپ سبھی کی سنتا رہتا ہوں ۔میں یہاں کئی بار آچکا ہوں اور بیشتر بزرگوں سے متعارف ہوں ۔ اصل میں ایک صاحب سے انس و محبت مجھے یہاں تک کھینچ لاتی ہے۔ ان چٹائیوں پر بیٹھ کر مجھے تو بہت سکون ملتا ہے ۔ کبھی کبھی یہاں کوئی قیمتی اور پتے کی بات بھی مل جاتی ہے ۔ کچھ نہ سہی تو یہاں کم از کم بندہ بوریت محسوس نہیں کرتا۔ آئیے آپ بھی یہاں ہونے والی ایک نشست میں شریک ہوجائیں،میری طرح بس سنتے جائیں اور جب جی چاہے چپکے سے اٹھ جائیں ۔ لیجیے غور کیجےے ‘نئے سال کی آمد کے بارے میں ماسٹر کریم بخش کہہ رہے ہیں: ”وقت اِسی طرح گزر جاتاہے سال کے شروع ہونے یا ختم ہونے کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ۔دعا کریں آنے والاوقت ہمارے لےے امن و سلامتی اور سکون لائے۔“ابھی وہ کچھ اور بھی کہتے کہ ایک صاحب نے اُن کی بات کاٹ دی اور اپنی کیسٹ لگا لی۔وہ اپنے اندرکے غصے کا اظہار کر رہا تھا، اُس کی باتوں سے بھلے کسی کو آگ لگے مگر وہ چپ نہیں رہتا،اپنے دل کی سنائے جاتا ہے اس صاحب کی گاﺅںمیں آٹا پیسنے کی چکی ہے ۔ تڑکے ہی یہاں آبیٹھتا ہے اور پھر بستی کے چراغ روشن ہوتے ہی وہ چکی بند کردےتا ہے ۔بھانبڑ یوں مچ رہا تھا :” چھوڑیں ماسٹر جی ! اتنی گہری باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں ، سکون اب کسی جگہ نہیں ہے۔ گھر میں مسائل باہر دکھ ۔
” بالکل جی۔ بالکل“! ان کی باتیں کھری اور سچی ہیں۔ ایک اور صاحب بولا : یہ باتیں جاری تھیںکہ جن کا انتظار تھا وہ صاحب آگیا۔اس کی آمد پر سبھی چہکنے لگے ۔ موصوف اِس محفل کی رونق تھا ۔وہ میاں محمد بخش ؒکاکلام ایسی پر سوز آواز میں گاتا کہ دلوں کے تار چھیڑتا۔
جیسے جیسے اندھیرا پھیل رہا تھا ، ڈیرے کا ماحول شباب پر آر ہا تھا۔کچھ دیر کو محفل میں سکوت سا طاری ہو گیا۔ پھراچانک ایک صاحب کی آواز گونجی: ” یار کل عجیب واقعہ ہوا ۔ہمارے گاﺅں میںسیلاب آگیا۔ سیلاب ؟ ایک کونے سے آواز آئی۔بن بادل برسات ؟؟ وہ بولا: ” بالکل جی ! قریبی فارموں کی دوسو بھینسیں اکھٹی نہر میں آگھسی تھیں جیسے ہی وہ نہر میں اتریں تو نہر کا پانی احتجاجاََ کناروں سے باہر نکل آیا۔اب خود ہی سوچو نہر کتنی چوڑی ہوتی ہے؟ سب نے کہا : ” چلو اب تو مسئلہ حل ہو گیا ہے ناں؟” جی بالکل “ اس نے کہا، اور پھر بولا یار کچھ سناﺅ میں تو بڑی دیر بعد ڈیرے پر آیا ہوں۔اس نے گلا صاف کیا تو محفل پر سناٹا چھا گیا۔بس پھر کیا بتائیں، ساریا ڈیرہ سوز سے بھر گیا۔