(روزنامہ آج میں شائع ہونے والے کالم جو اپنی اشاعت پر قارئین نے بے حد پسند کئے، ان سدا بہار کالموں سے انتخاب کا سلسلہ قارئین کی دلچسپی کے لئے شروع کیا گیا ہے‘ ان کالموں میں اعدادوشمار اور حالات کالم کی تحریر کے وقت کی عکاسی کرتے ہیں).................
ایک زمانے میں مہدی حسن کا گایا ہوا یہ گیت گلی گلی گونجتا تھا ‘بھانڈے قلعی کرا لو‘فلم میں یہ گیت اس دور کے قد آور فنکار محمد علی پر فلمایا گیا تھا۔آج کی نسل یہ نغمہ سنے تو اس کی سمجھ میں شاید ہی آئے کہ یہ کیا گانا ہوا۔بات تو ٹھیک ہے جس نسل نے پتھر کی بنی ہوئی آٹے کی چکی نہ دیکھی ہواس کا کیا قصور ہے۔اگلے روز چند طلبا سے چکی سے متعلق پوچھا تو وہ حیران ہو گئے کہ پتھر سے آٹا کیسے پیسا جاتا ہوگا وہ بھی ہاتھ سے۔نئی نسل بھی کیا کرے اب ایسی اشیاءدکھائی ہی نہیں دیتیں۔گندم لے کر آٹا چکیوں پر لے جا کر پیسوانے کا رواج بھی ختم ہو گیا ہے اور اب ہاتھ والی چکی تو دیہات میں بھی کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔یہی حال بھانڈے قلعی کرانے کا بھی ہے۔یہ وہ دور تھا کہ استعمال کے برتن تانبے پیتل اور سلور کے ہوا کرتے تھے‘ مسلسل استعمال سے یہ برتن جب خراب ہو جاتے تو پھر ان پر قلعی کراکے دوبارہ نیا بنا لیا جاتا تھا‘ پنجابی میں برتن کو بھانڈ ا کہا جاتا ہے ۔بہت سی چیزیں وقت گزرنے کے ساتھ تبدیل ہوگئی ہیں۔ ایک وقت تھا کہ علم کی تلاش میں لوگ نکل کر دوردراز کا سفر کرتے تھے، اب گھر پر علم حاصل کرنے کے ذرائع ہاتھ آگئے ہیں ویسے علم بھی ایک پیاس کا نام ہے‘پرانے زمانے میں لوگ کتنی صعوبتوں کے بعد درسگاہوں تک پہنچتے تھے مسلسل سفر کر کے علم کی پیاس بجھائی جاتی تھی لیکن اب زمانہ بدل گیا ہے۔جدید دور میں انسان کی سہولت اور آرام کےلئے کیا کیا اشیاءایجاد ہو چکی ہےںجس سے تن آسانی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔اب یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ جس علم کی تلاش میں دنیا کے دوسرے کونے تک سفر کیا جاتا اس کی قدر کیا ہوگی اور گھر بیٹھے جو علم ملے تو اس کی قیمت کیا ہوگی۔ویسے علم کی تلاش میں اس طرح سرگرداں ہونا اب ممکن بھی نہیں رہا،آج کا انسان ذرا سی گرمی برداشت نہیں کر سکتا کہ اسے ائرکنڈیشنر میں رہنے کی عادت ہو چکی ہے۔ایک دور میں لوگ اپنی گرم دوپہریں درختوں کے سائے میں گزارتے تھے۔ٹھنڈے پانی کےلئے لوگ گھڑوں کا پانی پیتے تھے آج فریج کا دور ہے۔ہمارے نوجوان گھر میں داخل ہوتے ہی فریج سے بوتل نکال کر منہ سے لگا لیتے ہیں‘اس سے انسان گلے کی بیماریوں میں مبتلا ہو سکتا ہے۔خیر یہ تو نئی اور پرانی نسل کا فرق ہے۔اوپر علم کی قدر وقیمت کی بات ہوئی اب معلم کی قدر اور اہمیت کی بات ہو جائے، ہمارے وقتوں میں استاد کے ساتھ طالب علم ایک بہت ہی احترام کارشتہ تھا کہ استاد کے ساتھ بات کرتے ہوئے بھی طالب علم کے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ‘اب وہ حالت نہیں ہے ۔اسلئے تو معاشرے میں جس طرح کے روئیے پروان چڑھنے لگے ہیں اس کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ تعلیم میں اضافہ ہوگیا ہوگا مگر تربیت جس طرح پہلے اساتذہ طلبہ کی کرتے تھے وہ بات اب نہیں رہی۔ ضرورت ہے کہ اساتذہ کو ہر طرح کی اہمیت ملے یہ تو ایک اٹل حقیقت ہے کہ جب تک معاشرے میں اساتذہ کا وقار بحال نہیں ہو گا ہم بہترین قوم نہیں بن سکتے‘یہ اساتذہ ہی ہیں جو مردم شماری سے لےکر انتخابات اور ڈینگی پولیو کی مہموں میںبھی جھونکے جاتے ہیںاور بھی جہاں کوئی افرادی قوت درکار ہو دیگر سرکاری ملازموں کی طرح اساتذہ کو گھسیٹ لیا جاتا ہے‘ تاہم معاشرے میں ان کا اثر رسوخ اور مقام وہ نہیں جو دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی ہے جو کسی بھی طرح اساتذہ سے سے زیادہ تعلیم یافتہ نہیں ہوتے ۔مقصد معاشرے میں اساتذہ کا احترام بحال کرانا قوم کے وقار کو بحال کرانے کے مترادف ہے ۔