محترمہ فاطمہ جناح کی کتاب سے اقتباسات 

 محترمہ فاطمہ جناح کتاب ”میرا بھائی“ میں لکھتی ہیں ‘ میرے والد نے محمد علی جناح کو 10سال کی عمر میں نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا ۔ دیکھو بیٹا زندگی کو سمجھنے کے دو ہی راستے ہیں ایک یہ کہ آپ اپنے بزرگوں کی دانش اور تجربے پر بھروسہ کریں ‘ ان کی نصیحت قبول کریں اور ان کے مشورے کے عین مطابق عمل کریں ۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ خود اپنے راستے پر چلیں چاہئے غلطیاں کریں مگر ان سے سیکھیں اور زندگی کی شدید اور تکلیف دہ ٹھوکروں اور مشکلات سے سبق حاصل کریں ۔ محمد علی جناح نے ہمیشہ دوسرا راستہ اختیار کئے رکھا ۔ میرے بھائی ، اس قسم کے طالب علم نہیں تھے جنہیں کوئی امتحان پاس کرنے کیلئے ہمہ وقت کتابوں پر جھکے رہنا پڑتا ہو بحیثیت طالب علم انہوں نے خود کو مختلف سرگرمیوں کے گرداب میں الجھائے رکھا تھا ۔ جن میں سے بیشتر کا تعلق انگلستان میں مقیم ہندوستانی طلبہ کی سرگرمیوں سے تھا لندن میں ان کی آمد کے پہلے ہی برس ہندوستانی طلباءمیں بے حد جوش و خروش پایا جا رہا تھا کیوں کہ ایک ہندوستانی نژاد پارسی شخصیت دادا بھائی نوروجی کئی برس پہلے کاروبار کے سلسلے میں بمبئی سے آکر لندن آباد ہوگئے تھے

 

ان دنوں وہ برطانوی دارالعوام کی نشست کیلئے انتخاب لڑ رہے تھے ۔ وہ اس قسم کے انتخاب میں حصہ لینے والے پہلے ہندوستانی تھے اور یہ فطری امر تھا کہ لندن میں مقیم ہندوستانی طلباءان کی انتخابی مہم میں جوش و خروش سے حصہ لے رہے تھے ۔ قائد اعظم نے بھی اس انتخابی مہم میں دل و جان سے حصہ لیا ۔ انتخابی مہم کے ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے میرے بھائی نے مجھ سے کہا ” جب مجھے علم ہوا کہ لارڈ سالیوی نے اپنی تقریر کے دوران دادا بھائی نوروجی کو کالا آدمی قرار دے کر مذاق اڑایا ہے اور ووٹروں کو کہا ہے کہ وہ دادا بھائی کے کالے رنگ کے باعث انہیں منتخب نہ کریں تو میں غصے سے کھول اٹھا ۔ اگر دادا بھائی کالے ہیں تو میں ان سے بھی کالا ہوں اگر ہمارے پولیٹیکل ماسٹرز کی یہ ذہنیت ہے تو ہم ان سے کبھی انصاف اور منصفانہ طرز عمل کی توقع نہیں کر سکتے ۔ اس روز سے میں قطعی طورپر ہر قسم کے رنگ کے امتیاز کے خلاف ہوں ، میں نے انتقاماً دادا بھائی نوروجی کے لئے کام کیا اور وہ خوش قسمتی سے جیت گئے اگرچہ دادا بھائی کو معمولی اکثریت سے کامیابی ملی تھی لیکن لندن میں مقیم ہندوستانی طلبہ کا جوش و خروش دیکھنے کے قابل تھا ۔ فاطمہ جناح اپنی یاداشتوں میں لکھتی ہیں ۔ بمبئی میں ایک نوجوان وکیل کی حیثیت سے محمد علی جناح ایک مرتبہ جسٹس مرزا کی عدالت میں پیش ہو رہے تھے

 

ان کے مخالف وکیل سرچن لال سیتلواڑ تھے ۔ جب قائد دلائل دے رہے تھے تو جسٹس مرزا نے انہیں ٹوکا اور سرزنش کی ۔ قائد نے اس کا برا منایا اور اس کے بعد انہوں نے جسٹس مرزا کو ایسے انداز میں مخاطب کیا جسے جسٹس مرزا نے اپنی توہین سمجھا۔ جج نے نوجوان بیرسٹر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے الفاظ اور لہجہ توہین عدالت کی گرفت میں آسکتا ہے ۔ اس واقعے کا تذکرہ سرچن لال نے اپنی کتاب میں کیا ہے کہ میں مسٹر جناح کو جانتا ہوں کہ ان کا مقصد عدالت کی توہین ہرگز نہیں ہو سکتا ۔ میرے بھائی کے وسیع مطالعہ نے انہیں انگریزی زبان کے بہت سے ادیبوں اور شاعروں کی تخلیقات سے روشناس کرا دیا تھا ان میں سے بعض کا مطالعہ تو انہوں نے اپنی آخری عمر تک جاری رکھا ۔ ان میں سے شکسپیئر ان کے لئے بے حد دلکشی رکھتا تھا وہ لندن تھیٹر کے شوقین تھے ۔ لیکن وہاں اکثر جانے کیلئے ان کے پاس پیسے نہیں ہوتے تھے ۔ انہیں تھیٹر کی دنیا کی جگمگاتی مگر مہنگی راتوں سے اپنے آپ کو دور ہی رکھنا پڑتا تا کہ وہ روپیہ بچا کر کتابیں خریدیں اور صبر و تحمل سے لنکن ان میں ہی اپنے بے کیف مطالعے کی تیاری کریں مختصر بجٹ کی وجہ سے وہ اپنی آمدنی بڑھانے کیلئے کوئی ملازمت بھی مل جاتی تو اسے خوش آمدید کہتے ۔

 

فاطمہ جناح لکھتی ہیں کہ جب میں کراچی میں اس مزار کی دیواروں کو ایک ایک انچ بلند ہوتے ہوئے دیکھتی ہوں جو میرے بھائی کے جسد خاکی کو محفوظ کر دینے کے لئے کھڑی کی جا رہی ہیں تو میرے ذہن میں اس المناک دن کی یادیں آجاتی ہیں جب 11دسمبر 1948ءکو ہفتے کے دن میرا بھائی مجھ سے چھن گیا تھا ۔ ان سے میری رفاقت چالیس سال سے بھی زیادہ عرصے پر محیط تھی ۔ اس طویل عرصے کے دوران میں نے ان کی زندگی کو کس طرح دیکھا تھا میں چاہتی ہوں کہ ان کیلئے فاتحہ خوانی کروں انہیں پھولوں کا نذرانہ پیش کروں اور ان کیلئے آنسو بہاﺅں ، وہ مزید کہتی ہیں کہ زندگی کے آخری دس برسوں کے دوران قائد اعظم محمد علی جناح کی سیاسی سرگرمیوں اور ذمہ داریوں میں کئی گنا اضافہ ہو گیا تھا ۔ جب کہ وہ بڑھاپے کی سرحدوں میں پہلے ہی داخل ہو چکے تھے ۔ ڈاکٹروں کے مشورے اورچھوٹی بہن کی التجاﺅں کے باوجود انہوں نے اپنا کوئی خیال نہیں رکھا ۔ وہ آرام کرنے اور اپنے کام میں کمی کرنے سے مسلسل انکار کرتے رہے وہ زندگی کی توانائی کے باقی ماندہ ذخیرے کو کسی کھلنڈرے بچے کی طرح بے دریغ لٹاتے رہے ان کی خرابی صحت سے خوفزدہ ہو کر میں جب بھی ان سے اتنا زیادہ کام نہ کرنے کی التجا کرتی تو وہ کہتے کیا تم نے کبھی سنا ہے کہ کسی جنرل نے چھٹی کی جب اس کی فوج میدان جنگ میں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہو۔

 

وہ کہتے کہ فرد واحد کی صحت کیا حیثیت رکھتی ہے جبکہ میں ہندوستان کے دس کروڑ مسلمانوں کی بقا کے بارے میں پریشان ہوں ، کیا تم جانتی ہو کہ مسلمان قوم کتنے خطرے میں ہے اور پھر وہ سیاست کے سمندر کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر جاتے ۔ قیام پاکستان کا مطالبہ تسلیم کیا جا چکا تھا اور پاکستان 15-14اگست کی درمیانی رات معرض وجود میں آچکا تھا ۔ جب ہم گاڑی میں کراچی کی مختلف سڑکوں پر سے ہوتے ہوئے گورنر جنرل ہاﺅس کی جانب جا رہے تھے تو لوگوں کے انتہائی خوش اور پر جوش ہجوم کو ہر گز خبر نہیں تھی کہ قائد اعظم کس قدر شدید علیل ہیں ان کی قوم کیلئے یہ آزادی کا دن تھا اور خود قائد کے لئے یہ تکمیل کا لمحہ تھا مگر سفر ابھی ختم نہیں ہوا تھا ۔فاطمہ جناح لکھتی ہیں پاکستان کی سرحد کے اس پار سے مسلمانوں کے قتل عام ، آبرو ریزی ، آتش زنی اور لوٹ مار کے خوف زدہ کر دینے والے واقعات نے قائد اعظم کے ذہن پر شدید اثرات مرتب کئے تھے ۔ جب وہ ناشتے کی میز پر مجھ سے اس قدر بڑے پیمانے پر کئے جانے والے قتل عام کا ذکر کرتے تو ان کی آنکھیں آنسوﺅں سے نم ہو جاتیں ۔ ہندوستان سے اپنے خوابوں کی سر زمین پاکستان آنے والے مہاجرین کی مصائب نے ان کی ذہن پر افسردگی طاری کر رکھی تھی ۔

 

سربراہ مملکت کی حیثیت سے وہ ان مہاجرین کے لئے جو کچھ کر سکتے تھے انہوں نے کیا وہ مطمئن تھے کہ ان لوگوں کو مناسب توجہ مل رہی ہے حالات کے جذباتی رخ اور قوم کو درپیش مشکلات نے نہ صرف ان کے جسم بلکہ ان کے جذبوں اور روح تک کو تھکا دیاتھا 14اپریل 1948ءکو انہوں نے گورنمنٹ ہاﺅس پشاور میں سول افسروں کا اجلاس طلب کیا اور ان میں سے اکثر کے ساتھ ملاقات کی ۔ انہوں نے کہا کہ آپ کو سب سے پہلی بات یہی بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کو کسی سیاسی دباﺅ میں نہیں آنا چاہئے خواہ یہ دباﺅ کسی سیاسی جماعت کی طرف سے ڈالا جائے یا سیاسی شخصیت کی طرف سے ، اگر آپ پاکستان کی عظمت اور وقار میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں تو اس کیلئے لازم ہے کہ قوم اور مملکت کے سچے خادموں کی حیثیت سے اپنا فرض دیانتداری اور بے خوفی سے ادا کرتے رہیں سول سروس کسی بھی حکومت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے حکومتیں بنتی اور شکست کھاتی رہتی ہیں وزرائے اعظم آتے جاتے رہتے ہیں وزراءحکومتوں میں شامل ہوتے ہیں اور الگ ہو جایا کرتے ہیں مگر آپ لوگ موجود رہتے ہیں لہٰذا آپ پر انتہائی اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ آپ صرف اور صرف قوم کی بقا کیلئے کام کریں ۔