کیاطاقتورظلم کاحساب دے گا؟

مغرب ہو یا مشرق‘ تاریخ کے اوراق درد وغم سے بھرے ہیں۔ ڈکٹیٹر شپ تو بدنام ہے جمہوریتوں میں بھی کمزوروں پر ایسے ظلم وستم روا رکھے گئے ہیںکہ تاریخ پڑھنے والے کو لگتاہے اس کو مسخ کرکے پیش کیا جا رہا ہے حالانکہ ایسا نہیں تھا‘ بڑے بہادر تھے وہ لوگ جو سخت سزاﺅں کے باوجود بھی تاریخ کی سچائی کولفظوں کی گہرائیوں میں بیان کر دیتے تھے۔ روس کی تاریخ اٹھالیں‘ برطانیہ کے بدترین قتل وغارت لے لیں یورپ کی ابتر ترین انسانیت سے عاری ایام دیکھ لیں یا پھر ایشیا، افریقہ کے غلامانہ ادوار کا مطالعہ کریں تو آج اک درد دل رکھنے والا اور اللہ کی قدرت سے آگاہی رکھنے والاانسان ایک دفعہ تو ضرور سوچنے پر مجبور ہوجاتاہے کہ انسان ہی انسان کو دکھی کیوں کرتا تھا۔ انسان ہی اپنے جیسے انسانوں کو طبقوں، گروہوں میں کیوں بانٹ دیتا تھا۔ کوئی دولت کے خزانوں پر سانپ بن کر اسکی حفاظت کا فریضہ سرانجام دیتا تھا اور اپنی آل اولاد کو ہیرے جواہرات پہناکر روٹی کھاتا تھا اور کسی کو کپڑوں سے عاری کرکے آل اولاد کو روٹی جیسی بنیادی ضرورت سے بھی محروم رکھا جاتا تھا۔ افریقہ میں محض رنگ کالا ہونے کی وجہ سے بڑے بڑے تنومند لوگوں کو غلام بنا لیا جاتا تھا بلکہ ان کی زیادہ تذلیل کرنے کیلئے ان کے گلوں میں زنجیریں اور پٹے ڈالے جاتے تھے جیسے وہ جانور تھے۔

 ایشیاءمیں نسل پرستی، مذہبی فرقہ واریت کی بناءپر انسان کا خون بہاکر سکون حاصل کیا جاتا تھا اور یہ تاریخ تو ان صدیوں پہلے زمانوں کی ہے جب ترقی یا تعلیم اس کی زندگی میں نہیںآئی تھی اور آج موجودہ دور میں جب انسان نے کائنات کو مسخر کر لینے کے بلند وبانگ دعوے کئے ہیں۔ چاند پر کمند ڈال دی ہے وہ طویل فاصلے لمحوں میں طے کرچکاہے۔ گھر میں رکھی ہوئی ایک چھوٹی سی سکرین سے مشرق اور مغرب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتاہے وہ ترقی یافتہ انسان اتنا ہی حیوان ہے جتنا صدیوں پہلے کا تھا۔ وہ قابل ملامت نہیں تھا کہ وہ بے خبر تھا۔ طاقت کے نشے سے چور تھا۔ تعلیم اور تربیت سے دور تھا لیکن آج کا انسان قابل ملامت ہے آج بھی وہ ایک ان دیکھی لاٹھی ہاتھ میں رکھتا ہے اور جہاں موقع ملتا ہے اس کوچلانے سے نہیں چوکتا۔ آج بھی انسان اپنے خزانوں کوسخت ترین پہروں میںرکھتا ہے۔ آج بھی وہ فرقہ وارانہ گروہوں میں بٹاہوا ہے۔ آج بھی غریب اور امیر ملک الگ ہیں ان کے طور طریقے، سوچ برتاﺅ سب الگ ہیں۔ کہیں مسلمان ہونا گالی بن جاتاہے تو کہیں کشمیری ہونا قابل عذاب بن جاتا ہے۔جنگل میں شیر کا قانون چلتا ہے۔ اس دوغلے پن کے شکاردنیا کے جنگل میں بھی سپر طاقتوں کا قانون چلتاہے ،جو مکمل طورپر ان کے اپنے مفادات کے موافق ہوتا ہے۔ کوئی سمندروں میں ڈوب جائے‘ عزتیں پائمال ہوں‘ قید خانے بھر جائیں‘ سرحدوںکی پائمالی ہو‘ انسانیت سڑکوں پر گھسیٹی جائے سپر پاورز صرف اس وقت لب کشائی کرتی ہیں جب ان کا اپنا من چاہتا ہے۔ دنیا کے درد وغم کیا کم ہوں گے‘ کیا فلسطین کے بچے امن کا زمانہ دیکھیںگے۔

کیا کشمیر کی بہنیں مائیں اپنے جوان بچوں کی لاشیں اٹھانا بند کرنے کا کوئی اچھا وقت کبھی دیکھ سکیں گی۔ کیا روہنگیا، شام، یمن کے بچے اور بزرگ ملبے کے ڈھیروں سے نکل سکیں گے۔ یقین نہیں آتا کہ ایسا اس صدی میں ہوجائے گا۔ انسان زیادہ طاقتور ہوگیا ہے تاریخ کے ادوار نے بس ترقی کرکے طاقت کو جدید بنانے میں بے حدمدد کی ہے۔ شام کے ایک بچے نے ڈاکٹرسے کہاتھا کوئی ایسی دوائی پلادو کہ مجھے بھوک نہ لگے۔ اربوں کھربوں ڈالروں کے انباروں کے اوپر بیٹھنے والے امیر ترین لوگ غریب رعایا کی ایک وقت کی روٹی کی اہمیت کا اندازہ کبھی بھی نہیں کرسکتے۔ آزادی واقعی اک نعمت ہے۔ جب اپنے آپ کو، اپنے ملک کو آزاد دیکھتی ہوں۔ اک خود مختاری جہاں وہ نماز پڑھتے ہیں۔ اذان دیتے ہیں، اپنی مرضی سے زندگیاں گزارتے ہیں ان سب کو اس غلامی کی تکلیف کا اندازہ نہیں ہوسکتا جو وہ لوگ گزارتے ہیں جن کو اپنی مرضی سے گھر سے باہربھی نکلنے کی آزادی نہیں۔ جن کا دماغ بھی اسی سوچ کے تابع ہے جو اس کا آقا سوچتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے بارے میں بہت پہلے ایک ہندوستانی فلم حیدر دیکھی تھی وہ اس ظلم وستم کی نقل تھی جو کشمیر میں ہندوستانی فوج کشمیریوں پر کرتی ہے۔ کرفیو زدہ علاقوں میں مفلوج زندگی میں اکا دکا لوگوں کو بھی زمینوں پر لٹاکر تلاشی لی جاتی ہے ۔

موت کی خاموشی میں زندگیاں گزاری جاتی ہیں۔ سرگوشیوں میں بات کرکے اپنی سوچ کو دوسروں تک پہنچایا جاتا ہے اور بے وجہ لوگوں کو گھروں سے اٹھا کر زندانوں میں ڈال دیاجاتاہے جہاںبہت ہی تھوڑی جگہ کی کوٹھڑی میں بے شمار لوگ سانس لیتے ہیں اور زندگی کی بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہوتے ہیں۔ ایساکرب ایسا دکھ اس فلم میں موجود تھا کہ دیکھنے والا مدتوں اس سے باہر نہیں آسکتا اور یہ فلم انڈین پروڈیوسر نے بنائی۔ انڈیا کا ہر فرد کشمیر میں ہونے والے ظلم وستم سے واقف ہے۔مغرب کی دنیا روہنگیا میں رہنے والے مسلمانوں کی بے چارگی سے مکمل آگاہی رکھتے ہیں لیکن یہ مسلمان قوم کامسئلہ ہے۔ سپر پاورز کشمیر، فلسطین، افغانستان، شام، یمن تمام حالت زار سے مکمل آگاہی رکھتے ہیں لیکن وہ دخل اندازی نہیں کرتے ، مغرب نے اپنے آپ کو پرسکون کرلیا ہے۔ اپنے شہروں کو اپنے ممالک کو اپنے عوام کو محفوظ کر دیا ہے۔ ان کے کسی شہری کو دنیا میں کہیں بھی میلی آنکھ سے کوئی نہیں دیکھ سکتا۔ ایک کینیڈین گورا سعودی عرب میں کسی معمولی جرم میں پکڑا گیا۔

مغربی دنیا میں بھونچال آگیا جب تک وہ اس قید خانے سے رہا نہیں کرا لیا گیا، یہ بھونچال جاری ر ہا۔ ہمارے کتنے ہی لوگ دنیا کے مختلف زندانوں میں بند ہیں۔ کتنے ہی مسلمان روزانہ گولیوں کا نشانہ بنتے ہیں۔ کبھی کوئی آنکھ نہیں نم ہوئی۔ کوئی لب کشائی نہیں ہوئی بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ بے خبری کا ایسا عالم ہے جو بہت گہرا ہے شاید قیامت کی دھاڑ سے ہی اس کی گہرائی ٹوٹے گی۔ عام انسان بے بس ہے۔ مایوس ہے، دل گیر ہے، خفا ہے، وہ اپنے طورپر کچھ نہیں کرسکتا بس وہ یہ ضرور سوچتا ہے کہ انسان ہی انسان کو کیوں مارتا ہے۔ انسان ہی انسان کو کیوں جلاتا ہے۔ اس کے گھر بار کو کیوں تباہ کرتا ہے۔ اس کو زندان میں کیوں ڈالتا ہے۔ ان سب سوالوں کے جواب میں ایک لفظ ظلم ذہن میں آتا ہے اور اس ظلم کا حساب ایک دن ہر طاقتور انسان کو اللہ کی عدالت میں ضرور دینا پڑے گا۔