گزشتہ دنوںایران نے بھارت کو چا بہار، زاہدان ریلوے پراجیکٹ سے الگ کر کے خود یہ منصوبہ مکمل کرنے کا جو اعلان کیا ہے وہ خطے میں وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں کے تناظر میں دور رس اہمیت کاحامل ہے بھارت کو کھڈے لائن لگا کر ایران کی قومی ترقی کے ادارے نے اس مقصد کےلئے400ملین ڈالر مختص کر دیئے ہیں‘جس کے تحت ایرانی بندرگاہ چا بہار سے زاہدان تک628کلو میٹر ریلوے لائن بچھائی جائےگی‘اگلے مرحلے میں اس ریلوے لنک کو افغان علاقے زارنج تک پہنچایا جائےگا اگر اِس منصوبے پر پروگرام کے مطابق عمل ہوتا ہے تو یہ مارچ2022 تک‘یعنی دو سال سے بھی کم عرصے میں مکمل ہو جائےگا‘بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کے دورہ تہران کے موقع پر اس معاہدے پر2016 میں دستخط ہوئے تھے،لیکن اب تک کام شروع نہیں ہو سکا تھا‘ بھارتی انجینئر کئی بار اس مقام کا دورہ کر چکے تھے جہاں سے پراجیکٹ کا آغاز ہونا تھا‘ پراجیکٹ شروع نہ ہونے کی بڑی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ بھارت کو خدشہ تھا کہ اگر منصوبے پر کام شروع کیا تو وہ کہیں امریکی پابندیوں کی زد میں نہ آ جائے‘ مودی نے منصوبے پر کام شروع کئے بغیر اس کے ڈپلومیٹک فوائد حاصل کرنے کی کوشش کی اور اسے اپنی بڑی کامیابی قرار دیتے رہے،لیکن اب لگتا ہے ایران کو بھارت کے خفیہ ارادوں کا ادراک ہو گیا ہے تو اس نے اسے معاہدے سے نکال دیا ہے۔اِس دوران ایک اہم علاقائی پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ ایران اور چین کے درمیان 25سال کا سٹرٹیجک معاہدہ حتمی شکل اختیار کر چکا ہے‘ جس کے تحت چین‘ایران میں400ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا اور ایرن، چین کی تیل کی تمام ضروریات پوری کرےگا‘ یہاں یہ امر بھی قابل ذکرہے کہ چا بہار کی تکمیل کے بعد بندرگاہ کے آپریشنز کا کام چین کے سپرد کر دیا جائے‘جو پاکستان میں گوادر بندرگاہ اور ائر پورٹ بھی تعمیر کر رہا ہے یہ اقدام علاقائی تعاون کے لئے ایک لمبی جمپ کی حیثیت رکھتا ہے اور ایسی صورت میں دونوں کاروباری حریف کی بجائے سِسٹر بندرگاہیں بن کر سامنے آئیں گی اور پورا خطہ کاروباری سرگرمیوں اور تجارتی سامان کی آمدورفت کا زبردست مرکز بن جائے گا۔
اس سے پہلے ایک ایرانی گورنر یہ تجویز بھی پیش کر چکے ہیں کہ اگر گوادر اور چا بہار کے درمیان ریلوے لائن بچھا دی جائے تو دونوں بندرگاہوں پر سامان کی آمدورفت میں آسانی پیدا ہو جائے گی، کیونکہ چا بہار اور گوادر کا درمیانی فاصلہ ایک سو کلو میٹر سے بھی کم ہے اور ریل کی پٹڑی بچھ جانے کی وجہ سے دونوں بندرگاہیں باہم مربوط ہو جائیں گی اور سامان کی نقل و حمل میں قابل ِ ذکر آسانیاں پیدا ہو جائیں گی۔ بھارت نے چا بہار کی تعمیر کا کام اِس لئے حاصل کیا تھا کہ اس کا خیال تھا یہ ایک متبادل تجارتی راستہ بن جائے گا اور اس طرح پاکستان کے راستے تجارتی سامان افغانستان لانے اور لے جانے پر انحصار کم ہو جائے گا،لیکن معاہدے پر عمل درآمد میں تاخیر سے ایرانی حکام اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور ہو گئے ہیں،کیونکہ چار سال کے عرصے میں اس ریل پراجیکٹ پر ابتدئی کام بھی شروع نہیں ہو سکا تھا۔امریکی پابندیوں کی وجہ سے بھارت نے ایران کی مجبوریوں کا دہرا فائدہ اٹھایا وہ ایران سے بھاری تعداد میں ادھار تیل خریدتا رہا اور اس کی ادائیگی میں بھی تاخیر ہوتی رہی،ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا،ایران بھارت سے مطالبہ کر رہا تھا کہ تیل کی ادائیگیاں جلد کی جائیں،لیکن بھارت ٹال مٹول سے کام لیتا رہا،ایرانی حکام یہ شاید اس لئے برداشت کرتے رہے کہ ان کے خیال میں چا بہار میں بھارتی سرمایہ کاری اور ریل پراجیکٹ سے ایرانی معیشت کو فائدہ پہنچتا،لیکن اب ایران کی یہ مجبوری ختم ہو گئی ہے اور اسے چین کی صورت میں ایک سٹرٹیجک پارٹنر اور تیل کا خریدار میسر آ گیا ہے،جو نہ صرف ایرانی تیل خرید رہا ہے، بلکہ ایران میں انفراسٹرکچر کے منصوبوں پر بھاری سرمایہ کاری بھی کرے گا۔
چین ایران کو ڈالر کے بجائے اپنی کرنسی میں ادائیگی کرے گا،ایسے محسوس ہوتا ہے کہ چین نے بھارت کے مقابلے میں خطے کی سیاست اور معیشت میں اپنا کردار وسیع تر کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، پاکستان میں سی پیک منصوبے پہلے ہی چینی سرمایہ کاری سے زیر تکمیل ہیں جو چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کا حصہ ہیں جو تین براعظموں کو آپس میں ملاتے ہیں،اب ایران بھی آنے والے دِنوں میں اس منصوبے کا حصہ بن سکتا ہے اور ایران کا ریل پراجیکٹ اس میں افغانستان کی شرکت کی راہ بھی ہموار کر سکتا ہے۔ بھات کو اس کا نقصان یہ ہو گا کہ خطے میں اس کی تنہائی بڑھ جائے گی، پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات پہلے ہی کشیدہ ہیں، سارک میں شامل چھوٹے ہمسائے بھی ایک ایک کر کے بھارت سے ناراض ہوتے چلے جا رہے ہیں‘پاکستان اور ایران آپس میں جغرافیائی، معاشی، سماجی ، تاریخی، سیاسی و ثقافتی اور لسانی بندھن میں بھی بندھے ہوئے ہیں‘ عین ممکن ہے کہ پاک ایران گیس پائپ لائن کے منصوبے میںبھی تبدیل شدہ حالات میں جان پڑ جائے۔ ایران کے مطابق اس گیس پائپ لائن کی تعمیر ایرانی علاقے میں مکمل ہو چکی ہے، اگلے مرحلے میں ایرانی سرحد سے لے کر نواب شاہ تک اسے مکمل کیا جانا ہے یہ پائپ لائن اگر تعمیر ہو جا ئے تو جہازوں کے ذریعے مائع قدرتی گیس درآمد کرنے کی ضرورت کم ہو جائے گی،بھارت کی ریل پراجیکٹ منصوبے سے علیحدگی کے بعد پاک ایران گیس پائپ لائن پراجیکٹ کی تکمیل کے جو مواقع پیدا ہوئے ہیں، سود و زیاں کا اچھی طرح حساب کر کے ہی اس حوالے سے پیش رفت ممکن ہے۔توقع رکھنی چاہئے کہ خطے کے بدلے ہوئے حالات میں یہ ممکن ہو سکے گا۔