ریڈیوپاکستان میںمیری یادیں

ریڈیو پاکستان راولپنڈی میں میری ٹرانسفر 1989ءمیں ہوئی میں ترقی پاکر یعنی سینئر پروڈیوسر بن کر اس سٹیشن پر آئی تھی جناب سلیمان المعظم کی تبدیلی اسلام آباد ریڈیو اسٹیشن ہوگئی تھی اور ان کی جگہ میری تعیناتی ہوئی تھی جناب زیڈ۔ یو کرمانی پنڈی میں ڈائریکٹر تھے اور شاید خوبصورت ذہن اور لائق ترین تخلیق کاروں کا یہاں ایک بیکراں ہجوم تھا جو اپنے اپنے فن کے ماہر تھے برکت اللہ صاحب ‘ طارق ایوب‘ محمد شکیل‘ آغاسید‘ شمع خالد‘ اظہر مجید‘ زاہد نقوی‘ خالد چوہان‘ فیاض کیانی‘ شیراز حیدر‘ محمود شاہ‘ آسیہ بخاری‘ ارنسٹ ٹھاکر داس اور بے شمار نام‘ جن سے میں نے اپنی پروفیشنل زندگی میں بہت سیکھا‘ بدھ کے دن کرمانی صاحب(مرحوم) اللہ تعالیٰ ان کو غریق رحمت کرے‘ اپنے کمرے میں پروگرام میٹنگ خود کیا کرتے تھے ہر پروگرام پر سیر حاصل تبصرہ کیاجاتا تعمیری تنقید کی جاتی‘ کتابوں کی باتیں ہوتی آئندہ ہونے والے پروگراموں کا لائحہ عمل طے کیا جاتا چائے بکسٹ سے تواضع کی جاتی اور یوں لرننگ سے بھرپور میٹنگ برخواست ہوتی آئندہ آنے والے بدھ کا انتظار شروع ہو جاتا بعدازاں سمیع قریشی صاحب سٹیشن ڈائریکٹر بن گئے اور انکے سکالری لب ولہجے اور سچے براڈ کاسٹرز کی حیثیت سے سب کو سیکھنے کا بہت موقع ملا‘ مجھے یاد ہے ہر ایک پروڈیوسر کے پاس کرنے کو بہت کام تھا سب روزانہ کی بنیاد پر ریکارڈنگ کرتے بڑے بڑے علم وفضل رکھنے والے دانشور شعراء‘ ادیب‘ سیاستدان‘ سائنسدان‘ اساتذہ اور اینکرز پروگراموں کی ریکارڈنگ یا انکی براہ راست نشریات کیلئے پنڈی ریڈیو سٹیشن آتے اور ریڈیو کے مائیکروفون کے ذریعے سامعین کو اپنے خیالات سے نوازتے‘ بوریوں کے حساب سے خطوط آتے جو سامعین پروگرام سن کر اپنی آراءکا اظہار کرتے‘ میرے پاس میرے پروگراموں کی اتنی زیادہ ڈاک اکٹھی ہو جاتی کہ مجھے پڑھتے پڑھتے گھنٹوں لگ جاتے ‘ای میل یا واٹس ایپ کا زمانہ نہیں تھا خطوط اور ٹیلی فون کازمانہ تھا میں دن میں کئی بار سٹوڈیوز جاتی۔

 میرے ہاتھ میں ہمیشہ سکرپٹس‘ ٹیپس ہوتے کبھی ریکارڈنگ‘ کبھی ایڈیٹنگ‘ کبھی پروڈکشن اور کبھی پروگرام نشر کرنے کیلئے۔ جوش وجذبہ ایسا تھا کہ اونچی ھیل پہن کر بھی تھکن کا احساس نہ ہوتا تھا‘ اک لگن اور جذبہ‘ ریڈیو پاکستان سے محبت کبھی تھکنے ہی نہیں دیتی تھی چونکہ میرا تعلق پشاور سے ہے اسلئے پشاور کے لوگوں کو پنجاب کے لوگوں میں اپنا آپ منوانا ذرا مشکل ہی ہوتا ہے‘ لیکن اپنی محنت اور لگن سے میں نے ریڈیو پاکستان میں اپنے آپ کو اچھا پروڈیوسر بنانے کیلئے دن رات ایمانداری سے کام کیا پشاور بہت زرخیز زمین ہے پطرس بخاری زیڈ۔اے بخاری اور آرٹ کی دنیا کے بڑے بڑے نام دلیپ کمار‘ راجکپورفیملی‘ مدھوبالا‘ قتیل شفائی‘ احمد فراز‘ گل جی اور بے شمار نام پشاور کے ہی ہیں ریڈیو پاکستان راولپنڈی میں گزارے ہوئے چھ سات سال کبھی یادوں سے محونہیں ہوتے اور ان ساتھیوں سے محبت کے جذبات ہیں جن کے ساتھ بہت بہترین وقت گزارا‘ریڈیو پاکستان74 سالوں سے تخلیق کاروں کے ہجوم میں گھرا ہوا ہے پاکستان بننے کے بعد جن لائق فائق لوگوں نے ریڈیو پاکستان کے ستونوں کو تھامااور اپنی بے پایاں صلاحیتوں سے سامعین تک اپنے خیالات اور آوازوں کے جادوئی تاثرات کا ایسا پر تو چھوڑا کہ جنہوں نے اس زمانے کے پروگرام سنے وہ آج تک وہ سحر نہیں بھول سکتے اگر میں اپنے بچپن کی بات کروں تو ریڈیو پاکستان پشاور کا سحر تو پشاور کے ہر محلے گلی اور گھر کے اوپر چھایا رہتاتھا گرمی کے وہ دن چھت پر بستر لگے ہوئے ہرچھت پر ایک ریڈیو پڑاہوا اور کچھ ایسے پروگراموں کا انتظار‘ کہ جن کو سننے کیلئے ایک ہفتے کے بعد دوسرے ہفتے کا شدت کے ساتھ آرزو مندی‘ لالافدو ا نہی پروگراموں میں سے ایک تھا ان دنوں کئی پروگرام ہندکو زبان میں نشر ہوتے تھے۔

 آج جب کہ میں ریڈیو پاکستان میں تین دہائیاں گزار کے ریٹائر ہو چکی ہوں تو مادری زبان پشاور ریڈیو میں وہ اہمیت ایک دم سے کھو چکی ہے ہندکوزبان کے پروگرام آج نشر نہ ہونے کے برابر ہیں بلکہ پاکستان ٹیلی ویژن پر بھی کئی مادری زبانوں کی نمائندگی میں کمی آئی ہے پشاور ریڈیو میں عمر ناصر ‘ جبار صاحب‘ عثمان خان‘ سردار محمد‘ نواب علی یوسفزئی‘ حمد اللہ جان بسمل ‘ شرف الدین مخلص ‘ عزیز الرحمن ‘ فضل مولا باسط سلیم اور نجانے کیسے کیسے بڑے نام کہ اپنی ذات میں انجمن تھے کئی بڑے نام بعد میں راولپنڈی ریڈیو سٹیشن پر بھی ٹرانسفر ہو کر آئے اور مجھے انکے ساتھ کام کرنے کا شرف حاصل ہوا خصوصاً شرف الدین مخلص ایک سادہ سا انسان لیکن تخلیق کے لحاظ سے ایسا ذہین و فطین راولپنڈی جیسے سٹیشن پر کبھی مات نہیں کھائی پنجاب میں نوکری کرنا پشاور کے لوگوں کیلئے کچھ مشکل ہوتا ہے بہت دیر سے پنجاب کی سمجھ آنا شروع ہوتی ہے اور پھر اپنے آپ کو منوانے کیلئے زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے صوبوں کے مزاج اور عادات مختلف ہوتی ہیں ریڈیو پاکستان جو پشاور کے گلی محلوں میں کھیلنے والے اور پشاور کے بظاہر پسماندہ سکولوں سے پڑھے ہوئے دو عظیم بھائیوں نے پروان چڑھایا ذوالفقار علی بخاری اورپطرس بخاری‘ مجھے بھی ہمیشہ فخر رہا کہ میں اسی پشاور کے نام سے جانی جاتی ہوں۔

 اور میں نے اگرچہ ساری ملازمت راولپنڈی اسلام آباد کے مختلف سٹیشنوں پر گزاری لیکن اللہ کا شکر کہ کبھی کسی بھی پیشہ ورانہ تخلیقی معاملے میں پیچھے نہیں ہٹی بلکہ بہت کچھ سیکھا‘ پاکستان براڈ کاسٹنگ اکیڈمی کی یادیں‘ اپنے اساتذہ کی اعلیٰ ترین قابلیت‘ وہاں سے علم حاصل کرکے زندگی کے کئی زندگی کے کئی ماہ سال تخلیقی سرگرمیاں نبھاتے رہنا کبھی بھی نہیں بھولتا‘ ضمیر صدیقی‘ ظہیر حسن‘فرمان اللہ جان ‘ اکرم علی‘ اظہار کاظمی اورباسط سلیم میرے عظیم اساتذہ میں شامل تھے تخلیق کاری کے وہ اسباق جو ان سے پڑھے ساری پیشہ ورانہ زندگی میں کام آئے اوران ہی کی روشنی سے اپنا گھر بھی منور کرتی رہی ان سب کیلئے بہت دعائیں ہیں اگرچہ میری بہت خواہش ھی کہ میں ریڈیو پاکستان ملتان‘ ریڈیو پاکستان لاہور‘ اور ریڈیو پاکستان کراچی میں بھی کچھ عرصہ ملازمت کا ضرور گزارتی‘ نجانے کتنے ہی شاعروں‘ ادیبوں سے میری ملاقات رہتی اور سیکھنے کے مواقع ملتے لیکن عورت کی ذمہ داریاں گھر بار شوہر بچوں کے گرد حصار باندھ لیتی ہیں اور بھلا ہو کہ سینئرز بھی کہ ایسا لحاظ کرتے تھے کہ تبدیلی کے بارے میں ایک لفظ تک نہیں بولتے تھے کیسی کیسی یادیں آتی ہی چلی جارہی ہیں۔(ایک تقریب میں پڑھا جانے والا مضمون)