صوبائی دارالحکومت پشاور میں کارپٹ سازی کی سب سے بڑی مارکیٹ گزشتہ برسوںمیں بدامنی اور امن وامان کی بدترین صورتحال کے نتیجہ میں تباہی کے دھانے پر پہنچ چکی ہے،مختلف مقامات پر قائم تقریباً 800دکانوں میں کام کرنے والے ہزاروں افراد بے روزگار ہو چکے ہیں اور بہت سے لوگ کارپٹ سازی کے اس کاروبار کو خیر باد کہہ چکے ہیں۔خیبر پختونخوا میں قالین بافی کا کاروبار تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے پشاور میں قالین بافی کی بڑی بڑی مارکیٹیں بند ہونے سے ملک کو کروڑوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے افغانستان سے آنے والے قالین کی مرمت کاکام پشاور کے مختلف حصوں میں کیا جاتا تھا جو اب صرف شعبہ بازار میں ایک مارکیٹ تک محدود ہو گیا ہے 8سال قبل پشاور میں ہزاروں کی تعداد میں قالین کے کاروبار سے وابستہ مزدور مصروف تھے اب کاروبار ختم ہونے سے چند مقامی افراد اس میں محنت مزدوری کر رہے تھے پشاور میں قالین کا کاروبار زیادہ تر افغانی لوگ کر رہے تھے جن کو یہاں پر درپیش مسائل کی وجہ سے اپنا کام چھوڑنا پڑا اور زیادہ تر تاجر افغانستان ،ایران ، جرمنی، ایران، جنوبی افریقہ چلے گئے۔ قالین سے وابستہ افغانیوں کے مطابق ٹیکسوں اور کاروائیوں میں اضافہ ،بینکوں میں اکاونٹ نہ دینے،ویزہ لگانے اور دیگر مسائل سمیت حکومت کی جانب سے اس کاروبار پر عدم توجہی سے زیادہ تر افغان تاجر یہاں سے چلے گئے ہیں جس کی وجہ سے کروڑوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔افغانستان میں بنائے گئے قالین پاکستان کے راستے سے دنیا کے مختلف ممالک کو برآمد ہوتے تھے پاکستان میں ان کی مرمت اور رنگ وروغن کی وجہ سے ان قالینوں پر پاکستان کا نام لکھا جاتا تھا جس کی وجہ سے یہ قالین پاکستان کے نام سے جانے جاتے تھے۔پاکستان میں افغانیوں کی وجہ سے قالین سازی کی صنعت نے اتنی ترقی کی کہ وہ دنیا کے ان ممالک کی صف میںکھڑا ہو گیا تھا جو کہ بہترین قالین میں اپنا ایک مقام رکھتے تھے لیکن بدقسمتی سے آج یہ کاروبار انتہائی مشکل صورتحال سے دوچار ہے۔ گھروں کی سجاوٹ میں قالین کو خاص اہمیت حاصل ہے جبکہ پاکستانی قالین دنیا پھر میں مقبول ہیں،دلکش وشوخ رنگوں کے قالین گھر کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیتے ہیں ، دور جدید میںہاتھ سے بنے قالینوں کی مانگ میں کمی آئی تو ان کی جگہ جدید مشینوں سے تیار کئے گئے دیدہ زیب قالینوں نے لے لی جو اپنی باریک بینی اور دلکشی کے باعث لوگوں کی توجہ کا مرکز بنتے ہیں۔
افغانی اور ایرانی قالینوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں تیار کردہ رنگ برنگے اور دیدہ زیب قالینوں کی اپنی الگ پہچان ہے جو دنیا بھر میں پسند کئے جاتے ہیں‘ قالین سازی کی صنعت کا ملکی زرمبادلہ میں بھی اہم کردار ہے دور جدید میں خوبصورت پتھروں سے یوں تو گھر کی سجاوٹ کی جاتی ہے مگر اس کے باوجود قالین کی اہمیت کم نہیں ہوئی۔جدید ٹیکنالوجی کے باعث لوگ ہاتھ سے بنے قالینوں کے بجائے مشینوں کے بنے قالین خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں جس کے باعث ہاتھ سے بنے قالینوں کی گھریلو انڈسٹری متاثر ہو رہی ہے۔حکومت کی عدم سر پرستی کے سبب پاکستان کی قالین سازی کی صنعت زبوں حالی کا شکار ہو گئی۔ پوری دنیا میں بہترین قالین پاکستان، ایران، وسطی ایشیائی ممالک اور افغانستان میں تیار ہوتا ہے جوکہ بین الاقوامی مارکیٹ میں اپنی منفرد پہچان رکھتا ہے‘معیار کے لحاظ سے مقامی مارکیٹ میں افغانستان سے مشہوراقسام یعنی بلوچی،کزک ،بلجیک،چوبرنگ،سارکوئی،حال محمدی،انحوی اور ربریزی وغیرہ کے قالین آتے ہیں‘قالین بھیڑ کی اُون اور ریشم کے کپڑے سے تیار کیا جاتا ہے۔ پاکستانی کارپٹ کی پوری دنیا میں مانگ ہے تاہم رابطوں کے فقدان اور موثر مارکیٹنگ نہ ہونے کی وجہ سے کارپٹ انڈسٹری لاکھوں ڈالر کی ایکسپورٹ سے محروم ہے۔45کروڑ ڈالر سے زائد ایکسپورٹ کی مالیت 2دہائیوں میں پاکستان سے نکل کر بھارت کے ہاتھ میں چلی گئی۔ماضی میں پاکستان میں ہاتھ سے بنائے گئے قالین دنیا بھر میںمقبول تھے،20سال قبل تک پاکستانی قالین ملک میں لاکھوں افراد کو روزگار فراہم کرنے کے ساتھ زرمبادلہ کے حصول کا بھی اہم ذریعہ تھے اور امریکا،برطانیہ یورپی ممالک سمیت خلیجی ممالک پاکستانی قالین کے بڑے خریدار تھے،تاہم بڑھتی ہوئی لاگت کا شکار قالین سازی کی گھریلو صنعت کو حاصل حکومتی سر پرستی وقت کے ساتھ ختم کر دی گئی جس سے پاکستان کے لئے انٹر نیشنل مارکیٹ میں بھارت سے مقابلہ دشوار تر ہوتا چلا گیا ۔
جس کے نتیجے میں ملک بھر میں لگی قالین سازی کی کھڈیاں بند ہو گئیںاور کاریگروں نے متبادل روزگار اختیار کر لیا۔قالین سازی کی صنعت کی مشکلات میں حکومت کی عدم توجہی کے ساتھ خود قالین کی صنعت بالخصوص ایکسپورٹ سے وابستہ کمپنیوں کی حکمت عملی کا بھی ہاتھ ہے،پاکستان میں روایتی طرز کے قالین بنائے جاتے رہے جبکہ بھارت نے اپنی صنعت کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا۔ قالین کے تاجر اپنا بچا کچھا مال فروخت کر کے کاروبار لپیٹنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔قالین سازی انتہائی مشکل کام ہے جس میں نہ صرف ذہن کا استعمال زیادہ ہوتا ہے بلکہ اس میں جسمانی طور پر طاقتور ہونا بھی ضروری ہے ۔ ہاتھ سے قالین بافی کرنا ایک بہت مشکل کام ہے۔ایک چھوٹا قالین تیار کرنے میں تین سے چار افراد جبکہ بڑا قالین بنانے میں 5 سے 10افراد کو سخت جدو جہد کرنا پڑتی ہے یہاں پر زیادہ تر قالین ہاتھوں سے تیار کئے جاتے ہیں جس پر مشین کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ محنت کی جاتی ہے‘قالین کی فروخت کے لئے خیبر بازار،شعبہ بازار اور صدر میں بڑے بڑے تجارتی مراکز قائم کئے گئے اور شروع میں یہ پورا کاروبار افغانستان کے لوگوں کے ہاتھ میں تھا جسے بعد میں پاکستانی ایک حد تک سیکھ کر اس کے حصہ دار بن گئے۔قالین سازی کی صنعت میں پاکستان نے اتنی ترقی کی کہ وہ دنیا کے ان ممالک کی صف میں کھڑا ہو گیا جو کہ بہترین قالین تیار کرنے میں اپنا ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔قالین کی صنعت کی بحالی کے لئے حکومتی توجہ ضروری ہے پاکستان سی پیک منصوبے اور چینی مارکیٹ تک رسائی سے بھر پور فائدہ اٹھا سکتا ہے اور کارپٹ کی صنعت کو پیروں پر کھڑا کرنے کے لئے حکومتی سرپرستی فراہم کی جائے تو نہ صرف قالین بنانے کے دم توڑتے فن کو جلا بخشی جا سکتی ہے بلکہ کھوئی ہوئی ایکسپورٹ مارکیٹ بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔حکومت کو چاہئے کہ ملکی معیشت کو فروغ دینے کے لئے زوال کا شکار قالین سازی کی صنعت کو پروان چڑھانے کے لئے ٹھوس حکمت عملی مرتب کر کے ہزاروں ہنر مند بے روزگاروں کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرے۔