خبر شائع ہوئی ہے کہ ”پب جی گیم“ کھیلنے سے منع کرنے اور موبائل نہ ملنے پر نوجوان نے خودکشی کر لی۔ اس سے قبل بھی اسی طرح کے تین نوجوان خودکشی کر چکے ہیں۔ دیکھنے میں تو مصروفیت کا بہترین حل موبائل کا استعمال ہے مگر ہمارے ہاں تو ساری قوم ٹچ موبائل کے ساتھ منسلک ہو چکی ہے۔ آپ کسی کو فون کرنے کیلئے موبائل فون ہاتھ میں لیں تو سوشل میڈیا آپ کو فی الفور اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ وٹس ایپ‘ ٹوئٹر‘ فیس بک‘ یوٹیوب کی نئی تازہ دیکھنے کیلئے آپ ساری ایپلی کیشن سے چپک جائیں گے اور وقت کا احساس ہی نہ رہے گا‘ گھنٹہ بھر کے بعد آپ کے اعصاب شل ہو جائیں گے تو آپ موبائل بند کرکے رکھ دیں گے اور آپ کی وہ ضروری کال دھری کی دھری رہ جائے گی۔ اس موبائل کی مصروفیت نے محفلوں کو اُجاڑ دیا ہے۔ اب یار لوگ محافل میں بھی ایک دوسرے سے بات چیت کی بجائے اپنے اپنے موبائل میں گم رہنے لگے ہیں۔ اب تو کوئی بھی کام کیا جا رہا ہے تو موبائل بھی ساتھ ساتھ دیکھا جا رہا ہوتا ہے۔ موبائل کے بخار سے اب کوئی بھی شخص‘ بچہ‘ بوڑھا‘ نوجوان ‘ عورت ‘ مرد محفوظ نہیں ہے۔ خواتین ڈرامے دیکھتے ہوئے بھی موبائل میں بھی مصروف رہتی ہیں‘ اس کار لاحاصل میں وہ اس قدر منہمک ہوتی ہیں کہ انہیں اپنے چھوٹے بچوں کی بھی پروا نہیں ہوتی بلکہ بعض تو بچوں کے رونے پر یا انہیں الگ سے مصروف رکھنے کیلئے ایک موبائل ان کے ہاتھ میں بھی دے دیتی ہیں تاکہ بچہ ان کی مصروفیت میں مخل نہ ہو۔ نوجوان حضرات کو بھی ٹک ٹاک‘ یوٹیوب ‘ فیس بک‘ ٹوئٹر سے ایک لمحے کی فرصت نہیں۔ بیشتر مختلف گیمز میں ایسے چپک ہوتے ہیں کہ ارد گرد سے بے نیاز جا جاتے ہیں۔
‘ انہیں آس پاس کی کچھ خبر نہیں ہوتی۔ ترکی ڈرامے نے بھی بعض نوجوانوں کو بد حال کر رکھا ہے وہ ایک روز میں کئی کئی اقساط دیکھتے ہیں جس سے ان کی آنکھیں اور اعصاب شل ہو جاتے ہیں۔ کھانے پینے کی بے احتیاطی یعنی وقت پر خوراک نہ ملنے کے باعث ان کی صحت خراب ہو رہی ہے وہ دیکھنے میں مریضوں کی طرح لگتے ہیں۔ مسلسل سکرین سے چمٹے رہنے سے بصارت معدوم ہونے لگتی ہے۔ بھوک کم ہونے لگتی ہے‘ پھر فیس بک وغیرہ سے چونکہ ساری دنیا ایک بازار کی شکل میں ڈھل چکی ہے‘ وہ اپنے دوستوں اور ہم عمر افراد کے بارے میں یہ جان کر کہ وہ ترقی کر گئے ہیں۔ مزید ڈپریشن کا شکار ہو رہے ہیں‘ ایک عجیب مردنی سے ہر چہرے پر دکھائی دیتی ہے۔ آن لائن شاپنگ کی بیماری سے بھی معاشرے میں ایک سہل پسندی اور بیزاری سی پھیل رہی ہے۔ بعض اوقات غیر ضروری اشیاءاور ادویات بھی منگوالی جاتی ہیں۔ آن لائن شاپنگ سے ڈیلیوری گھر پر ہوتی ہے۔ سو اگر کوئی چیز خراب ہے یا کم تر درجے کی ہے تو اس کا ازالہ بھی نہیں ہوتا بہت کم کمپنیاں بہتر اشیاءکی ضمانت دیتی ہیں۔ فیس بیک کے کمنٹس پر بھی دوست جھگڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ کیمرے نے ہماری زندگی اجیرن کر دی ہے اب ہر منظر کو فلم بند کرنا ہم اپنا اولین فریضہ سمجھتے ہیں۔ ایک شخص اگر آگ میں جل رہا ہے تو اسے بچانے کی بجائے لوگ اس کی عکس بندی میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ اپنی تصاویر اپ لوڈ کرنے میں بھی ہم کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ سیلفی سے بھلے ہماری صورت اچھی نہ لگے مگر ہم یہ کام ضرور کرتے ہیں۔
کھانے پینے سے لے کر اپنی ہر مصروفیت کی فلم بندی کو ضرروی سمجھ کر ساری دنیا کو دکھاتے ہیں۔ ٹک ٹاک سے ہر شخص کے اندر کا اداکار‘ گلوکار باہر آچکا ہے۔ بچے‘ بوڑھے‘ جوان‘ عورتیں‘ مرد سبھی اس مرض کا شکار ہیں۔ جس سے بیشتر اوقات مضحکہ خیز صورتحال جنم لیتی ہے۔ شر پسند عناصر بھی ہر جگہ پائے جاتے ہیں‘ دھوکہ دینے والے بھی سوشل میڈیا پر اپنی دو نمبر اشیاءفروخت کرتے نظر آتے ہیں‘ شر پھیل رہا ہے‘ فرقہ واریت کے شعلوں کو ہوا مل رہی ہے‘ خوشیوں سے محروم لوگ جب دوسروں کی پر تعیش زندگی کے مناظر دیکھتے ہیں تو ان میں نفرت‘ غصہ‘ انتقام‘ بے حسی کے جذبات جنم لیتے ہیں۔ فیس بک پر کمنٹس کی صورت میں ایک منافقت ریا کاری پھیل رہی ہے۔ اگر آپ کسی کی تصویر ‘ شعر یا ایکٹیویٹی پر کان نہیں دھرتے تو آپ کو بھی کوئی منہ نہیں لگاتا۔ بس ہر شخص اپنی ڈفلی اپنا راگ الاپ رہا ہے ۔ اب تو بیماری پرسی اور تعزیتی معاملات میں بھی سوشل میڈیا سے کام چلایا جا رہا ہے یوں انسان‘ انسان سے کٹ کر رہ گیا ہے وہ محفل میں تنہا ہوگیا ہے۔ نجانے آنے والے دنوں میں ہماری قوم زوال کے کس عروج پر جا ٹھہرے گی۔ وقت دعا ہے۔