سکولوںمیںبنیادی سہولیات

 خبر آئی ہے کہ حکومت نے کو رونا سے بچاﺅ کےلئے احتیا طی تدا بیر کے ساتھ سکو لوں کو دوبارہ کھولنے سے پہلے سروے کرا یا تو پتہ لگ گیا کہ خیبر پختونخوا کے 33ہزار سر کاری سکو لوں میں سے12ہزار سکو لوں میں سما جی فاصلہ رکھنے کے لئے اضا فی کمرے نہیں ہیں 6ہزار سکولوں میں غسل خانے اور واش بیسن کی سہو لت نہیں 4ہزار سے زیا دہ سکو لوں میں پا نی کا نلکا نہیں ہے یہ محدود سروے تھا جو ایک وبا ئی مرض سے بچاﺅ کے لئے کیا گیا تھا اگر اس میں مزید سوالات ڈالے جاتے تو پتہ لگ جا تا کہ 88فیصد سکو لوں میں کھیل کا میدان نہیں ہے یعنی 28ہزار سکول کھیل کی سہو لت سے محروم ہیں 60فیصد سکولوں کی چار دیواری نہیں یعنی 19ہزار سکول چار دیواری سے محروم ہیں اگر مزید تحقیق کی جا تی تو پتہ لگ جا تا کہ 70فیصد سکو لوں میں بجلی نہیں 50فیصد سکول ایسے ہیں جن کے دروازے اور کھڑ کیاں ٹو ٹی ہوئی ہیں ‘سر کاری سکول کو کسی بھی گاوں میں لا وارث عما رت سمجھا جا تا ہے جس کا کوئی پُر سان حال نہیں 75فیصد سکول ایسے ہیں جہاں بچے ننگے فرش پر بیٹھ کر پڑھتے ہیں اور ننگے فرش پر بیٹھ کر امتحا ن دیتے ہیں نجی سکولوں میں بعض سر کاری سکولوں سے بہتر ہیں مگر زیا دہ تعداد اُن کی ہے جو سر کاری سکو لوں کے برابر سہو لیات بھی طا لب علم کو نہیں دیتے کوئیڈ19-کی وباءنے جہاں ہماری آبادی کو عذاب اور مصائب سے دو چار کیا وہاں اس وباءکی وجہ سے ہمارے سکولوں اور ہسپتالوں کی دو نمبری بھی پکڑی گئی سما جی تر قی کے دو اہم اداروں سے حکومت کی لا پر واہی بے نقاب ہو گئی اس وباءکی وجہ سے یہ بھی معلوم ہو اکہ سکولوں اور ہسپتالوں کی نگرانی کا کوئی نظام، کوئی سسٹم ، کوئی دفتر مو جود نہیں ہے ۔

اگر ہسپتالوں میں دستیاب سہولتوں کا جا ئزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ 90 فیصد ہسپتالوں میں علا ج معا لجہ دو ر کی بات ہے بنیا دی انسا نی ضروریات ، پا نی ، واش روم اور صاف ہوا کی سہو لیات بھی دستیاب نہیں اب لامحالہ تو جہ اس پر مر کوز ہو تی ہے کہ ایسا کیوں ہو تا ہے ‘ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران اپنے بچوں کو سر کاری سکول نہیں بھیجتے سر کاری ہسپتا لوں سے علاج معا لجہ نہیںکراتے اگر ایک سر وے کرا یا جائے تو پتہ لگے گا کہ کسی سابقہ اور مو جودہ وزیر ، سنیٹر ، ایم پی اے یا ایم این اے کا بچہ ،بھا نجا ، بھتیجا سر کاری سکول میں نہیں پڑھتا اس کے گھروالے سر کا ری ہسپتال سے علا ج نہیں کراتے سرکاری سکول اور سر کاری ہسپتال جانا وہ اپنی تو ہین سمجھتے ہیں ان کو تا ہیوں کا ازالہ کرنے کے لئے دو نکا تی منصو بے پر عملدرآمد کی ضرورت ہے پہلا نکتہ یہ ہے کہ سر کاری سکولوں اور ہسپتالوں کا نظم و نسق بہتر بنا کر حکمران طبقے کےلئے دونوں کو قابل قبول بنا نا چاہئے‘ اس کا سیدھا سادہ طریقہ کا ر یہ ہے ڈائریکٹریٹ سے لیکر ضلعی سطح تک سکولوں اور ہسپتالوں کانظم نسق سی ایس ایس اورپی ایم ایس کیڈر کے تر بیت یافتہ آفیسروں کے ہاتھو ں میں دیدیا جائے ایسے آ فیسرایک بار سکولوں اور ہسپتا لوں کا دورہ کرینگے تو ان کو تمام خا میوں کا بخو بی اندازہ ہو جائے گا۔

 یہ آفیسرمنصو بہ بندی کی سطح پر بہتر صلاحیت کا مظا ہرہ کرینگے پا لیسیوں پر عملدر آمد کےلئے ما تحت عملے کی بہتر رہنما ئی کر سکیںگے اور ما تحت عملے سے بہتر انداز میں کام لے سکیںگے جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ عوام کو تعلیم اور علاج معا لجہ کی بہتر سہو لتیں ملیںگی‘ دوسرا ضروری اور اہم نکتہ یہ ہے کہ وزراء، اراکین اسمبلی اور سنیٹر وں پر لا زم قرار دیا جائے کہ ان کے بچے سر کاری سکو لوں میںپڑھیںگے جن کے بچے ملک سے باہر ہیں ان کو ملک میں واپس بلا یا جائے گا تا کہ سرکاری سکول صرف غریب، غر بائ، نادار، یتیم ، مسکین اور محتاج طبقے کےلئے مختص نہ ہو حکمران طبقے کے لئے بھی ہو‘اسی طرح وزراء، سنیٹر ز ، ایم این اے اور ایم پی اے صا حبان کے گھر وں سے اگر لوگ علا ج کےلئے سر کاری ہسپتا ل کا رخ کرینگے تو سر کاری ہسپتالوں کے اندر بنیادی سہولیات کی فراہمی میں حا ئل رکا وٹیں دور ہو جائینگی کورونا کی وباءنے جہاں ہم سب کو آزمائش میں ڈال دیا وہاں اس وباءکے نتیجے میں سکولوں اور ہسپتا لوں کے بنیا دی نقائص بے نقاب ہو گئے۔ دیکھا جائے تو کورونا وباءنے کئی ایسی خامیوں کو سامنے لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے جو بصورت دیگر نظروں سے پوشیدہ رہتی ان میں صحت کے شعبے میں موجود خامیوں کےساتھ ساتھ تعلیمی اداروں میں موجود سہولیات کی کمی کو بھی آشکارا کیاہے۔ اب یہ حکومتی ذمہ داری ہے کہ اس طرف بھرپور توجہ مبذول کرے۔