ملک کے طول و عرض میں طویل لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ بدستور جاری ہے جس کا اندازہ یوں کیا جا سکتا ہے کہ کئی شہروں میں 4سے6گھنٹے اور دیہاتوں میں 8سے12گھنٹے تک بجلی کی بندش اب معمول بن چکی ہے جس سے فیکٹریوں اور ملو ں میں کام ٹھپ ہونے سے مزدوروں کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں،طویل عرصے سے کراچی کے عوام بجلی کی عدم دستیابی پر سراپا احتجاج تھے، لیکن اب تو ملک بھر کے تمام شہروں میں بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ نے شہریوں کے د ن کا سکون، رات کا چین برباد کرکے رکھ دیا ہے، وزیراعظم عمران خان کے بجلی بنانے والی کمپنیوں کے ساتھ نئے حکومتی معاہدے کے بعد قوم کو آنے والے دنوں میں بجلی کی قیمتوں میں کمی کی خوشخبری سنانے اور لائن لاسز اور بجلی کی چوری کی روک تھام کے لئے اصلاحات کا عندیہ دینے کے بعد اچانک سے ملک میں لوڈشیڈنگ کی طوالت میں اضافہ اور بجلی کی آنکھ مچولی کو غیرمتوقع قرار نہیں دیا جاسکتا، کیونکہ قبل ازیں مافیا چینی کی قیمتوں میں کمی، گندم وآٹا مارکیٹ سے غائب کر کے مہنگا کرنے سمیت وزیراعظم کے دیگر اعلانات اور وعدوں کو غلط ثابت کرنے کی منظم کوشش کر چکی ہے۔ چینی کی قیمتیں ا بھی تک حکومت وعدالتی احکامات و اقدامات کے باوجودکم نہیں ہوئیں، بلکہ پہلے سے بھی زیادہ قیمت میں اضافہ ہوا ہے۔اس تنا ظر میں لگتا ہے کہ بجلی کی قیمتوں بارے وزیراعظم کے اعلان اور حکومتی معاہدے کو ناکام بنانے کیلئے بجلی کی پیداواری کمپنیوں نے بھی گٹھ جوڑ کر لیا ہے، سرکلر ڈپٹ میں بھی اضافہ اور حکومت کی جانب سے بجلی کمپنیوں کو واجبات کی عدم ادائیگی بھی وہ مسائل ہیں جن کو حل کئے بغیر بجلی کی طلب ورسد کا توازن برقرار رکھنا مشکل ہی نہیں، بلکہ ناممکن ہوگا۔، شہریوں کے مطابق ان علاقوں سے پوری ریکوری ہو رہی ہے اور لائن لاسز بھی نہیں، لیکن اس کے باوجود بجلی کی دن رات آنکھ مچولی جاری ہے۔ بجلی کمپنیاں باقاعدگی کے ساتھ صارفین سے نہ صرف بلوں کی رقم وصول کرتی ہیں، بلکہ گرمیوں میں صارفین سے بجلی کے غیرحقیقی اور زائد نرخوں کے مطابق وصولی کی جاتی ہے، مثال کے طور پر کسی کے بجلی کا بل تین سو روپے کے قریب بھی آ جائے تو اضافی یونٹ ڈال کر اسے تین سو سے زائد بنا کر تقریباً اٹھارہ سو وپے تک کا اضافی بوجھ صارفین پر ڈالا دیاجاتا ہے، علاوہ ازیں اضافی یونٹ ڈال کر یونٹوں کی تعداد بڑھا کر مہنگا کرنے کے ساتھ مزید اضافی رقم بھی صارفین سے وصول کی جاتی ہے، اس کے باوجود عوام کوبے تحاشا لوڈشیڈنگ کا سامنا کر نا پڑ رہا ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر حکومت کو جہاں عوامی شکایات کا ازالہ کرنے کی ضرورت ہے، وہیں بجلی کے متبادل ذرائع کے استعمال کی بھی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے۔سابق حکومت عوام کو سہانے خواب دکھاتی رہی اور عوام آنکھیں بند کر کے پیچھے چلتے رہے لیکن اب ان رازوں سے آہستہ آہستہ پردہ اٹھ رہا ہے کہ کس طرح ملک وقوم کو اندھیروں میں دھکیلنے اور قرضوں میں جکڑنے کاکام کیا۔ گویا جان لیوا لوڈ شیڈنگ پی ٹی آئی کو ورثے میں ملی ہے لیکن اب اس پر قابو پاکر عوام کو سہولیات فراہم کرنا اس کی ذمہ داری ہے۔اس حقیقت سے بھلا کون انکار کر سکتا ہے کہ موجودہ دور میں ترقی اور خوشحالی کے ضمن میں جو معیارات مقرر کئے گئے ہیں ان میں بجلی اور پانی کی فراہمی نمایاں حیثیت رکھتی ہے۔ عوام کی طرف سے بھی مسلسل صدائے احتجاج بلند کی جاتی ہے لیکن ذمہ داران اور ارباب بست وکشاد کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔اس تناظر میں ضرورت اس امر کی ہیکہ عوام کو پانی اور بجلی کی بلاتعطل فراہمی کے لئے ٹھوس اور شفاف اقدامات کئے جائیں۔وطن عزیز کے عوام گزشتہ ایک عشرے سے زائد عرصے سے بجلی کے بحران اور اُس کی لوڈ شیڈنگ کے عذاب کو جھیل رہے ہیں۔بجلی کی لوڈشیڈنگ نے اہل وطن کو ایک ایسے عذاب کی کیفیت میں مبتلا کر رکھا ہے جس کے بیان کا احاطہ ممکن ہی نہیں تاہم اس کا کسی حد تک اندازہ ان مظاہروں سے کیا جا سکتا ہے جن کا سلسلہ ملک بھر میں جاری ہے اور جس کے دوران عوام کی طرف سے شدید ردعمل کا اظہار کیا جا تا ہے۔موسم گرما کی شدت سے عوام کا جسمانی اور ذہنی سطح پر نہایت براحال ہے۔ایک خیال تو یہ بھی ہے کہ ملک میں ضرورت کے مطابق بجلی موجود ہے، لوڈ شیڈنگ صرف اس وجہ سے کرنا پڑتی ہے کہ بڑے بڑے صارفین نے وسیع پیمانے پر بجلی چوری کے نیٹ ورک بنا رکھے ہیں۔ ان تمام شکایات پر توجہ دے کر لوڈشیڈنگ سے مستقل نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔