محمد علی کی والدہ بھی اس سے بے انتہا محبت کرتی تھی اور اس حقیقت کے باوجود کہ انہوںنے بعد ازاں چھ اوربچوں کو بھی جنم دیا وہ اپنی زندگی کے آخری لمحے تک محمد علی سے سب سے زیادہ پیار کرتی رہیں ‘ 19اگست1947ءکو گورنر جنرل کی حیثیت سے اپنی پہلی تقریر کے دوران انہوں نے اپنے بچپن کی سہانی یادیں تازہ کرتے ہوئے فرمایا ہاں میں کراچی میں پیدا ہوا تھا اور لڑکپن میں کراچی ہی کی ریت پر گولیاں کھیلا کرتا تھا میں نے سکول کی تعلیم کراچی میں حاصل کی تھی قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی کوششوں سے بے پناہ تجربہ حاصل کیا تھا اسی لئے انہوں نے دوسروں کی جانب سے یہ کرو اور یہ نہ کرو جیسے احکامات کو قبول کرنے سے ہمیشہ انکار کیا۔
جب قائداعظم محمد علی جناح لندن میں تھے جہاں وہ اپنے والد کی خواہش پر بزنس مین بننے کےلئے کچھ تعلیم حاصل کرنے پہنچے تھے تو مختصر بجٹ کی وجہ سے ہوٹل کو خیر باد کہنا پڑا اشتہارات کے کالموں کا مطالعہ کرنے کے بعد انہوں نے چند ایک خاندانوں کے پتے نوٹ کر لئے جو پئینگ گیسٹ رکھنے پر آمادہ تھے اس قسم کے کئی گھرانوں سے ملاقات کرنے کے بعد انہوں نے مسز ایف پیچ ڈریک کے ہاں ٹھہرنے کا فیصلہ کر لیا ان کامکان35 رسل روڈ کینسگٹن میں موجودہ وسیع وعریض اولمپیا بلڈرز کے بالمقابل آئی سٹریٹ میں واقع تھا آج بھی یہ جگہ لندن میںرہائش کے لئے بہت مناسب ہے جو ایف سی ریلوے لائنوں کے سیکشنوں اور کراس سیکشنوں سے بلندی پر واقع ہے 1890ءمیں یہ لندن کے ان رہائشی علاقوں جگہوں میں شامل ہو گی جہاں رہائش کے متلاشی لوگ اکثر آتے جاتے ہوں گے چند سال پہلے لندن کاونٹی کونسل نے اس بلڈنگ پر ایک یادگار تختی نصب کروا دی جس پر یہ عبارت تحریر ہے ۔
قائداعظم محمدعلی جناح 1948-1876) بانی پاکستان نے یہاں 1895ءمیں قیام کیا قائداعظم کا متجسس ذہن اس وقت انگلینڈ میں اپنے قیام سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہتا تھا جب کہ برطانوی آزاد خیال اپنی قوم کے ذہنوں پر گہرا اثر مرتب کر رہی تھی وہ صبح اٹھتے ہی اخبارات بڑی احتیاط سے پڑھتے اور اپنا ناشتہ ختم ہونے سے پہلے انہیں پڑھ لینے کی مخصوص انگریزی عادت اپنا چکے تھے وہ بڑے لیڈر جو انگلینڈ کے سیاسی افق پر چھائے رہے محمد علی ان کی کامیابیاں اور پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ہونے والی تقاریر کو بڑے شوق سے پڑھتے یہ تمام حالات ان کو دوراہے پر لے گئے جہاں وہ فیصلہ کر رہے تھے کہ آیا انہیں بحیثیت اپرنٹس گراہمز میں کام کرتے رہنا چاہئے یا وہ انٹرنس کا امتحان پاس کرکے لندن کی کسی انر میں داخلہ لے لیں اوربیرسٹر بن جائیں وہ لکھتے ہیں
کہ مجھے یہ فیصلہ کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگی کہ مجھے بیرسٹر بننے کے لئے تیارہونا چاہئے میں نے لنکنز ان کے صدر دروازے پر دنیا کی نامور قانون ساز شخصیات کے ضمن میں اپنے عظیم پیغمبر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بھی کندہ دیکھا اس موقع پر میں نے ایک طرح کی منت مانی یا عہد کیا کہ لٹل گو میں کامیابی کے بعد میں لنکنزان میں داخلہ لوں گا جوں ہی میرے والد کو پتہ چلا کہ ان کے بیٹے نے لنکنز ان میں داخل لے لیا ہے اور اسے بیرسٹر بننے میں تین برس لگیں گے میرے والد نے مجھے خاط لکھا کہ اس غیر منافع بخش کام کو ترک کرکے فوراً گھر آجائیں سخت الفا پر مبنی خط کے باوجود والد کو التجا کی گئی کہ وہ بیرسٹری کی تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دے دیں اور یہ کہ وہ خود محنت کرکے اس تعلیم کی فیس اداکریں گے ‘ قائداعظم محمد علی جناح صرف18 برس کے تھے جب وہ اپنی ماں اور اپنی نوجوان بیوی ایمی بائی کی موت کاصدمہ برداشت کر چکے تھے
اور ان کا خاندانی کاروبار تباہی کے کنارے پر پہنچ چکا تھا بعض اوقات زندگی کے بڑے بڑے صدمات اور ٹھوکریں بعض افراد کی غیر معمولی اور خوابیدہ صلاحیتوں کو بیدار کر دیا کرتی ہیں ‘ قائداعظم محمد علی جناح نے مصائب اور نقصانات کا مقابلہ بڑ ی جرات کے ساتھ کیا اب انہوں نے اپنا نام بدل کر ایم اے جناح کر لیا لنکنز ان میں تعلیم کے دوران قائداعظم کی دلچسپیوں کا دائرہ وسیع تر ہو گیا انہوں نے برٹش میوزیم لائبریر ی کے لئے ایک ریڈر کی حیثیت سے ٹکٹ حاصل کیا اور اپنا وقت اپنے ذہن کو وسیع اور جامع مطالعہ سے مالا مال کرنے کے لئے وقف کر دیا کبھی کبھی وہ اتوار کی صبح مشور زمانہ ہائیڈپارک چلے جاتے اور وہاں کے ایک مخصوص گوشے میں خطاب کرنے والے مقررین کی تقاریر سنا کرتے تھے ہائیڈ پارک کو ان تقریروں کی وجہ سے ایک ادارے کی حیثیت سے عالمی شہرت حاصل ہوئی ہے ۔ قائداعظم سخت محنت کرکے لنکنز ان میں اپنا امتحان دو سال میں پاس کرکے صرف 18 برس کی عمر میں بیرسٹر کہلانے والے سب سے کم عمر ہندوستانی بن گئے
زندگی کی تمام تر مشکلات کے باوجود انہوں نے اپنے سماجی روابط برقرار رکھے ‘ وہ بمبئی کے بہترین کلبوں میں آتے جاتے رہے اور انہیں ممبئی کے معززین شہر کے گھروں میں منعقد ہونے والی پارٹیوں میں بھی بلایا جاتا رہا وہ اپنی عمر کی تیسری دہائی کے شروع میں انتہائی پرکشش نوجوان تھے وہ دبلے پتلے اور چھا جانے والی شخصیت کے مالک تھے ان کی آنکھوں سے ذہانت ٹپکتی تھی ہاتھ پاﺅں لمبے تھے نہایت نفیس لباس پہنتے تھے وہ جیسے پیدائشی طور پر ہی رہنما نظر آتے تھے1940ءمیں جب سے مسلم لیگ نے لاہور میں اپنی قرار داد منظور کی تھی جو قرار داد پاکستان کے نام سے معروف ہوئی تب سے وہ کام کی زیادتی کے باعث وہ اپنی گرتی ہوئی صحت کا بھی خیال نہ رکھتے انہوں نے اسی برس انسانی تاریخ کے ایک عظیم باب کی حیثیت سے قیام پاکستان کے مطالبے کو عملی شکل دینے کا بیڑہ اٹھایا‘ ان کی تقاریر میں وقفے کے دوران حاضرین قائداعظم زندہ باد کے نعرے لگاتے وہ نہیں جانتے تھے
کہ ان کا لیڈر مسلسل محنت اور کوشش سے کس قدر تھکا ماندہ مضمحل اور جسمانی طور پر کمزور اور بیمار ہے ‘ قائداعظم کی زندگی کا مقصد تکمیل پا چکا تھا اور انہیں مکمل کامیابی نصیب ہو چکی تھی ‘ علالت کی عفریت نے ان کی جسمانی طاقت زائل کر دی تھی لیکن ان کے نہ دبنے والے جذبے نے آزادی کے ساتھ آنے والے مسائل کا مقابلہ کرنے کے لئے ان کا سر بلند رکھا پاکستان بننے کے بعد پشاور میں ایڈورڈ کالج کے سٹاف اور طلباءسے خطاب کیا‘ وہ دن یاد دلایا جب 1937ءمیں انہیں صوبے سے نکال دیا گیا تھا انہوں نے بہادر پٹھانوںکاشکریہ ادا کیا جنہوں نے اکثریت سے پاکستان کے حق میں فیصلہ کیا تھا پشاور میں ہی ایک جلسے کے دوران آسمان پر گہرے بادل چھا گئے جلسہ شرع ہوا تو بوندا باندی ہونے لگی مگر بارش ہونے کے اندیشے سے بے نیاز ہزاروں لوگ اپنی اپنی جگہوں پر اسی طرح بیٹھے رہے ‘ وہ بیمار تھے اور بارش سے بری طرح بھیگ گئے تھے مگر وہ جلسے کی کاروائی کے دوران اسی طرح بیٹھے خراب موسم کا مقابلہ کرتے رہے اس رات انہیں زکام ہو گیاسردی لگ گئی اور کھانسی کے ساتھ شدیدبخار ہو گیا مرنے سے کچھ دن پہلے انہوںنے کہا مجھے کراچی لے چلےں میں وہیں پیدا ہوا تھا میں وہیں دفن ہوناچاہتا ہوں۔