دعوت تو ایسی ہی چل رہی تھی جیسے واقعی قربانی کا جانور ادھر ہی ذبح ہوا ہے لیکن جانور قربان کرنے کے رواج تو ہم اپنے وطن میں ہی چھوڑ آئے ہیں ۔ گلیوں اور محلوں میں بندھے ہوئے بکرے اور دنبے ۔ ویڑے اور گائیں ، مویشی منڈیاں سجائے دور دراز سے آئے ہوئے گاﺅں کے بیوپاری گاہکوں کے انتظار کرتے ہیں دو تین سال پہلے میرا بھی اسلام آباد کی ایک مویشی منڈی میں جانے کا اتفاق ہوا تھا ۔ ساری رات کی بارش نے منڈی کی سڑکوں کو کیچڑ کے ایسے دریا میں بدل دیا تھا کہ پتھر کا زمانہ بھی شاید شرما جاتا اگر وہ دیکھ لیتا ۔ ہماری گاڑی منڈی کے اندر تو چلی گئی اس کے پہیے اس عجیب و غریب کیچڑ کے مغلوبے پر چلنے سے سراسر انکاری ہوگئے ۔ ارد گرد لحیم شہیم جانور اتنی بڑی تعداد میں دیکھ کر ڈر سا لگنے لگا ۔ ان کے گلے کی رسیاں جس طرح بیوپاری اور گاہک کھینچ کر ان کا معائنہ کرر ہے تھے تو ان بے زبانوں کی آنکھیں باہر کو ابل رہی تھیں ۔ ہم تو ویسے ہی بے حس قوم ہیں انسانوں کی چیخ و پکار اور ظلم و ستم ہم کو سنائی ، دکھائی نہیں دیتا تو یہ تو ایک خاموش ظلم ہوتا ہے جس کا گواہ حساس دل ہی کر سکتا ہے
لیکن آج جب میں عید قربان کے دن ایک ایسی دعوت کو انجوائے کر رہی ہوں جہاں ایک لمبی میز ہے ۔ رنگ برنگے پکوان ہیں ۔ قسم قسم کے میٹھے بنے ہوئے ہیںلیکن کوئی قربانی نہیں ہوئی ۔ ہاں سنت ابراہیمی ؑ کی یاد میں دوست یا رشتہ دار آپس میں مل بیٹھ گئے ہیں ہر ایک کا مقصد یہی تھا کہ ہمارے بچوں کو پتہ چل جائے کہ آج عید ہے اور عید مل جل کر مناتے ہیں ۔ میں نے کچھ بچوں سے پوچھا کہ آج کی عید کو عید الاضحی یا عید قربان کیوں کہتے ہیں ظاہر ہے ان کا جواب نفی میں تھا ۔ یہاں نہ صرف بڑوں کے لباس کی نمود و نمائش ہوتی ہے بلکہ بچوں کے پہناوﺅں میں بھی برانڈ اور رنگوں اور ڈیزائنوں کا مقابلہ جاری رہتا ہے ۔ کاش بچوں کو آج کے دن کے بارے میں کچھ بتا بھی دیا جاتا ۔ لیکن یہاں کے بچے ۔ جہاں بھی جاتے ہیں مائیں ان کے آئی پیڈ ساتھ لے کر آتی ہیں کہ ہم اگر گپ شپ کریں گی تو ان کو کون سنبھالے گا ۔
یقین کریں نومولود بھی ماں کا آئی فون سامنے رکھ کر قہقہے لگا رہا ہوتا ہے ۔ ہاں سب بے فکرے لوگ اپنا فرض اس طرح ادا کرتے ہیں کہ کئی کئی سو ڈالر اپنے رشتہ داروں کو عید قربان سے پہلے ہی بھیج دیتے ہیں اگر پاکستان سے کہا جائے کہ جانور بہت مہنگا ہے تو زیادہ ڈالر ارسال ہوتے ہیں ۔ پاکستان کے رشتہ داروں کی چاندی ہو جاتی ہے ۔ فیس ٹائم پر جانور کو پسند کروایا جاتا ہے اور فیس ٹائم پر جانور کو ذبح کرتا ہوا دکھایا جاتا ہے ۔ یہاں کسی کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ جانور اپنا ہے یا کسی اور کا ۔ ہمسائے کا یا ان کا جن کو ڈالر مل چکے ہوتے ہیں ۔ یہاں سے ہدایت ہوتی ہے سارا گوشت غریبوں کو دے دیا جائے ۔ یہ ہدایت یقیناً نیک نیتی پر ہی مبنی ہوتی ہے لیکن کون دیکھے گا کہ گوشت غریب مسکین لوگوں تک پہنچا دیا گیا ہے ۔ فریزر اور فریج نے زندگیوں کو آسان بنا دیا ہے ۔
پرانے زمانے کے لوگ اس لئے ہی اللہ والے اور اللہ سے ڈرنے والے تھے کہ ان کے گھروں میں فریج نہیں ہوتا تھا بلکہ فریج ایجاد ہی نہیں ہوا تھا اس لئے تمام گوشت مسکین غریب تک لازمی پہنچتا تھا ۔ اب بھی اللہ سے ڈرنے والے لوگ موجود ہیں اور گوشت غریب تک پہنچتا ہوگا ۔ میں اپنے گھر میں جب قربانی کرواتی تھی تو ہمیشہ تین برابر حصے سارے گوشت کے کروا کے رکھ دیتی تھی اور ایک بچے سے پوچھتی تھی کہ اللہ کا حصہ کون سا ہے وہ معصومیت سے ایک ڈھیری کی طرف اشارہ کرکے کہتا تھا یہ اللہ کا حصہ ہے اور آپ یقین کریں وہ حصہ ہمیشہ ذرا بڑا ہی ہوتا تھا ۔ بس وہ سارا حصہ غریب مسکینوں کو ہی جاتا تھا ۔ دوسرا حصہ رشتہ داروں اور دوستوں کا اور تیسرا حصہ میں خود رکھتی تھی ۔ بعض اوقات تو اس میں سے بھی تقسیم کرنے کی توبت آجاتی تھی ۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی میں پاکستان میں تھی تو میری بہت ہی ایک غریب ترین ہمسائی جو بے چاری کام کاج کرکے چھ بچوں کا پیٹ پالنے کی کوشش کرتی تھی میں نے اس سے پوچھا یہ تمہاری بڑی بیٹی بہت خفا اور اکھڑی سی رہتی ہے
وہ بچی 10سال کی ہوگی ۔ تو وہ عورت بتانے لگی میں روزانہ آلو بناتی ہوں اور یہ روتی ہے کہ امی ہم کب تک صرف آلو ہی کھائیں گے ۔ اس لئے یہ خفا رہتی ہے ۔ گوشت اتنا مہنگا ہے کہ بمشکل سفید پوش لوگ بھی اس کاکھانا پورا کر سکتے ہیں کجا کہ 6بچوں کو گوشت کی ہانڈی بنا کر دیتا ۔ عید قربان کا مجھے تو بڑا مقصد یہی لگتا ہے کہ کچھ دن تو غریب ترین لوگ جنہوں نے پورا سال چھوٹے یا بڑے گوشت کو ہاتھ تک نہیں لگایا ان کے منہ میں بھی یہ ذائقہ ضرور جائے ۔ یہاں مغرب کے لوگ بہت امیر ہیں اور ان کا دل بھی چاہتا ہے کہ دروازے پر گائے بندھی ہو ۔ گلے میں گھنگھرو ہوں ۔ دبنے اور بکرے باہر ان کے دولت چشم کا مظاہرہ دکھا رہے ہوں لیکن افسوس یہاں ایسا کوئی رواج اور قانون نہیں ۔ مسلمان قصائی یہ فریضہ سرانجام دیتا ہے وہ کئی دن پہلے قربانی کیلئے بکنگ کر لیتے ہیں اور عید کے دوسرے یا تیسرے دن آپ ان کی دکانوں سے اپنا قربان جانور وصول کر سکتے ہیں لیکن جانور کی شکل و صورت کیا تھی ۔ رنگ اور جسم کیسا تھا ۔ اس کے دانت پورے تھے یا نہیں ۔ اس کی عمر کیا تھی ۔ اس کے سینگ ٹوٹے ہوئے تو نہیں تھے یہ پوچھنا یا دیکھنا آپ کا حق نہیں ہے اگر آپ کو قربانی قبول ہے تو 450ڈالر بکرے کے اور 300ڈالر گائے کے ایک حصے کے آپ یہاں جمع کروا دیں اور مقررہ دن آکر اپنا گوشت لے جائیں ۔ لیکن اللہ تعالیٰ یقیناً نیتوں کا مالک ہے وہ جانتا ہے کہ آپ اللہ کے اس فرض کو ادا کرنا چاہتے ہیں چاہے پاکستان میں رشتہ داروں کو ڈالر بھیج دیں یا یہاں قصائی کو ان دیکھے جانور کیلئے ڈالرز دے دیں قبول کرنے والی تو وہی ذات ہے ۔ پاکستانی رشتہ دار یا قصائی کی نیت اگر اچھی بری ہے تو وہی اس کا ذمہ دار ہے یہ قربانی کی عید کا دن حسب معمول ایک میز پر پڑے ہوئے مرغیوں کے سالن کے ساتھ ختم ہو ہی جاتا ہے ۔