موجودہ حکومت سے وابستہ توقعات کی بڑی وجہ یہ تھی کہ ماضی کی حکومتوں نے جو طرز عمل اپنایا تھا اس نے عوام کے مسائل کم کرنے کی بجائے بڑھا دئیے تھے اسلئے توجب عمران خان نے انہوں نے عوام کے غربت ، مہنگائی ، بے روزگاری کے سابق حکمرانوں کے گھمبیربنائے گئے مسائل کے حل، توانائی کے بحران اور آئی ایم ایف کے شکنجے سے ملک کو نجات دلانے اور اسکے ساتھ ساتھ معاشرے کو کرپشن کے ناسور سے پاک کرنے کا جس عزم ویقین کے ساتھ قوم کے سامنے ایجنڈا پیش کیا تھااس کی بنیاد پر قوم کی ان کے ساتھ بہت زیادہ توقعات وابستہ ہو گئیں تھیں۔جبکہ اقتداد سنبھالتے ہی وزیر اعظم نے اپنے منشور کے مطابق سب سے پہلے کفایت شعاری کی پالیسی اپنائی،ایوان صدر اور وزیر اعظم ہاو¿س سمیت حکومتی اخراجات کم کرنے کا اعلان کیا اور عوام کے روزگار کے لئے مختلف منصوبوں کا خاکہ پیش کیا۔
تاہم پی ٹی آئی حکومت کو اقتدار میں آنے تک ملک کی دگرگوں اقتصادی اور مالی صورتحال کا یقیناً ادراک نہیں تھا جبکہ قومی معیشت کی ان خرابیوں کے ہوتے ہوئے حکومت کے لئے عوام کی فلاح کے اقدامات اٹھانا مشکل امر تھا چنانچہ حکومت کو سب سے پہلے قومی معیشت کو اپنے پاو¿ں پر کھڑا کرنے کے لئے سخت مالیاتی پالیسیاں وضع کرنا پڑیں جس کے تحت ڈالر کے مقابلے میں کرنسی بے وقعت ہونے لگی اور حکومت کو دو ضمنی میزانیے پیش کرکے مروجہ ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ اور بعض نئے ٹیکس لگانا پڑے۔اسی طرح بجلی،گیس،ادویات اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ بھی حکومت کی مجبوری بن گیا نتیجتاً عوام غربت ،مہنگائی،بے روزگاری کے مسائل سے نجات پاتے پاتے ان مسائل میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔حکومت کو بے شک اپنے دوست ممالک سعودی عرب،چین،متحدہ عرب امارات سے12ارب ڈالر کے قریب مجموعی بیل آو¿ٹ پیکج بھی مل گئے لیکن اس کے باوجود قومی معیشت کو سنبھالانہ دیا جا سکا اور حکومت اپنے منشور اور ایجنڈے کے برعکس بیل آو¿ٹ پیکج کے لئے آئی ایم ایف سے رجوع کرنے پر بھی مجبور ہو گئی جس کے چھ ارب ڈالر کے قسط وار قرضے کے عوض اس کی ناروا شرائط قبول کرنا بھی حکومت کی مجبوری بن گیا۔
وزیر اعظم تو عوامی مسائل کے حوالے سے یقینا مضطرب تھے اور اصلاح احوال کے اقدامات بھی اٹھاتے رہے تاہم قومی معیشت پر چھائے مافیاز نے ان کی ایک نہ چلنے دی۔پہلے گندم اور آٹے کی مصنوعی قلت پیدا کرکے اس کے نرخ بڑھائے اور پھر چینی کی قلت کا بحران پیدا کر دیا۔اسی طرح پٹرولیم مصنوعات کے نرخ کم ہونے پر مافیاز نے پٹرول کی مصنوعی قلت پیدا کر دی اور حکومت کو نرخوں میں کمی کا فیصلہ واپس لینے پر مجبور کر دیا۔چنانچہ پی ٹی آئی کے قتدار کے دو سال کے دوران عوام کو مہنگائی اور بے روزگاری کے مسلسل جھٹکے لگتے رہے ہیں۔کورونا وباءکا زور ٹوٹنے کے بعد اب جبکہ معاشی سرگرمیاں تیز ہونے لگی ہیں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی کو کھولا جارہاہے یہ توقعات بے جا نہیں ہوں گی کہ اب حکومت کو اپنے معاشی ایجنڈے پر عمل درآمد کا موقع مل جائے گااور ملکی کی اقتصادی صورتحال بہتر ہوجائے گی۔
ایسے میں یہ بات قابل اطمینان ہے کہ کورونا وبا نے باقی دنیا میں جو نقصانات کئے پاکستان ان سے محفوظ رہا اور یہاں پر نقصانات کم سے کم ہوئے اس میں اگر دیکھا جائے تو حکومت کی دانشمندانہ پالیسیوں کو بھی بڑا عمل دخل ہے کہ جنہوں نے ایک طرف کورونا کو محدود رکھاتو دوسری طرف ایسے شعبوں کو بھی فعال رکھا کہ جن کے بغیر زندگی کے امور بری طرح متاثر ہوتے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ دنیا کا کوئی بھی ملک نہیں جس کو کورونا وبا نے زبردست معاشی نقصانات نہیں پہنچائے۔ اس تمام بحث کا حاصل یہ ہو سکتا ہے
کہ ایک طرف اگر حکومت سے عوام نے توقعات وابستہ کررکھی تھیں اور وہ حاصل نہ ہو سکیں تو دوسری طرف کچھ شعبوں میں حکومتی کارکردگی مناسب رہی اور اس نے بین الاقوامی ستائش سمیٹی۔اب بھی وقت ہے کہ معاشی اور اقتصادی پالیسیوں پر یکسوئی کے ساتھ عملدرآمد ہو اور جس طرح مشکل حالات کا مقابلہ کرکے کورونا وبا کے حوالے سے پالیسیوں کے ذریعے بین الاقوامی تعریف سمیٹی گئی اسی طرح اب اقتصادی میدان میں بھی خاطر خواہ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بین ا لاقوامی سطح پر ایک مثال قائم کی جائے۔