یادداشت اور ذہانت میں فرق

بانو
استاد بچے اور والدین کا آپس میں گہرا رشتہ ہوتا ہے اس مثلث میں سے کسی ایک لکیر کو بھی نکال دیں تو وہ لکیریں ہی کہلائیں گی کوئی زاویہ نہیں بن پائے گا استاد مشرقی اور مغربی معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے جس نے آپ کی آنے والی کئی نسلوں کو تعلیم اور معلومات فراہم کرنا ہوتی ہیں لکھنا اور پڑھنا سکھانا ہوتا ہے اور زندگی کی اس معاشرتی دوڑ میں اسکو چلنے‘ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بھاگنے دوڑنے کے قابل بنانا ہوتا ہے اگر استاد کی معاشرتی اہمیت اس قدر زیادہ ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں ہمارے معاشرے میں وہ کون لوگ ہیں جو استاد کا پیشہ اپناتے ہیں یا دوسرے الفاظ میں اس سوال کو آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ کن لوگوں کو بحیثیت استاد حکومت وقت منتخب کرتی ہے اور اپنے ہاتھ سے اپنی نسلوں کے ہاتھوں کو انکے ہاتھوں میں پکڑادیتی ہے ان کی تعلیم کیا ہے ان کی اپنی تربیت کن عوامل میں ہوتی ہے ان کا شوق تدریس کتنا ہے ٗ اگر خوش قسمتی سے ان بے شمار سوالوں میں زیادہ کے جوابات اچھے اور مثبت ہیں تو سمجھ لیں کہ آپ نے اپنی نسل کو محفوظ کرلیا ہے ورنہ پھر معاشرتی خرابیوں کے لئے ڈنکے کی چوٹ پر تیار رہیں مغرب میں استاد بننے کا پیمانہ اس قدر اعلیٰ ترین خوبیوں کا احاطہ کرتا ہے اور استاد بننے کے بعد بھی حکومت وقت والدین اور سکول انتظامیہ کی دوربین نظروں سے ان کا کوئی بھی رویہ پوشیدہ نہیں رہ سکتا مغرب میں بچے کو مرکزی حیثیت حاصل ہے استاد اور والدین اس کے بعد آتے ہیں جو بچے کی تعلیم اور تربیت میں مددگار ہوسکتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں یعنی پاکستان میں سکول کے اندر جھانک کر دیکھیں تو لگتا ہے کہ استاد مرکزی حیثیت کا حامل ہے بچہ اس کا ایک ہدف ہے یا اس کو بخش دیاگیا ہے کہ اس کو کلاس روم میں جو پڑھانا ہے پڑھاؤ اسکے ساتھ جو سلوک کرنا ہے کرو اور اگر یہ بے چارہ سوال پوچھ کر اپنی  علمی تشنگی کو مٹانے کی کوشش بھی کرے تو اسکا یہ قدم فوراً ہی روک دینا اگر میں اس طرح کے جملے لکھ رہی ہوں تو اساتذہ سے بھی معذرت چاہتی ہوں ٗاسلام آباد کے وہ سکول جہاں میرے بچے پرائمری اور ہائی سکول میں پڑھ کر جوان ہوئے ہیں جن کا بڑا نام ہے ان سکولوں میں بھی ایسی ایسی نا انصافیاں معصوم بچوں کے ساتھ دیکھنے میں آئی ہیں کہ ہم جیسے والدین بھی دنگ رہ جاتے ہیں ٗکاش ایسی نا انصافیاں آج کے بچوں کو دیکھنی نہ پڑیں مغرب میں استاد اور اس کے تدریس کے طریقے‘ بچوں کی تعلیم میں اسکی دلچسپی ہم جیسوں کو تو حیران کردیتی ہے شخصیت کی نشوونما کیلئے وہ اپنے کلاس روم کو کس طرح سجاتے ہیں ٗسکھانے کے کون کون سے گر آزماتے ہیں اور ہر بچے کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو کیسے ابھارتے ہیں ٗیہ درست ہے کہ پاکستان میں اساتذہ کو بے شمار مسائل کا سامنا ہے جن میں سب سے بڑا مسئلہ تو کلاس روم میں بچوں کی تعداد ہے۔ اگر انسان پوری طاقت بھی استعمال کرلے تو ایک کلاس میں 50-45 بچوں کو اس طرح تعلیم وتربیت نہیں دے سکتا جس طرح مغرب کی کلاس میں 25-20 بچے یا اس سے بھی کم ہوتے ہیں ٗخواتین کے لئے تو یہ ایک قابل عزت اور حیادار پیشہ ہے جو انہوں نے اپنانا ہی ہے۔  نصابی کورس کو ختم کرانا بھی ایک اور قباحت ہے کہ ہر صورت میں کتاب کو ختم کروانا ہے۔ چاہے طالب علم ذہنی طور پر اس کو اخذ کرتے ہیں یا نہیں‘ سمسٹرسسٹم کا نہ ہونا بھی بہت بڑی خرابی ہے اگر ایک کتاب کو  4 حصوں پرتقسیم کرکے ذہانت کے امتحان سے جوڑ دیا جائے تو بہت بہترین رزلٹ سامنے آ سکتا ہے لیکن لمبے جوابات دینے پر مشتمل طریقہ امتحانات بچوں کی یادداشت کا ظالمانہ اقدام ہے جو ننھے پھول جیسے طالب علموں کوکمہلا دیتا ہے‘ مغرب میں بچے جس وقت اپنا پروجیکٹ کمپیوٹر اور ریفرنس بکس کی مدد سے بنا رہے ہوتے ہیں ہمارے ملک میں بچے کازور کتاب کو از بر حفظ کرنے میں ہوتا ہے ان باتوں سے کوئی ہمدردی نہیں رکھی جاتی کہ ایک طالب علم سکول کن حالات میں آتا ہے اس کے گھر کی سفید پوشی اس کے اکثراوقات ان پڑھ والدین اور مضمون کو سمجھ میں نہ آناان باتوں سے استاد کو بہت زیادہ سروکار نہیں ہوتا‘ میں نے سرکاری سکولوں میں ننھے بچوں کو یونیفارم کا سویٹر نہ پہننے پر گھنٹوں کلاس کے باہر کھڑا دیکھا ہے کالے بوٹ نہ پہننے پر ان کو سخت سردی میں مار پڑ رہی ہوتی ہے۔انگریزی کا مضمون اک اور بہت بڑی بلا ہے کہ کے جی سے انگریزی پڑھنی ہے اور اگریہ نہیں پڑھی تو زندگی ترقی کر ہی نہیں سکتی کاش کوئی مزید تعلیم گوروں کی اس زبان کو آپشنل کر دے اور طالب علموں پر ظلم وستم جو اس زبان کے سکھانے میں روا رکھے جاتے ہیں ختم ہو جائیں‘ کینیڈا میں دنیا کے ہر ملک کا بچہ موجود ہے لیکن ذریعہ تعلیم صرف کینیڈا کی اپنی زبان انگریزی ہے۔ انہوں نے صرف ایک زبان کو مد نظر رکھا ہوا ہے۔ وہی جو یہاں اس ملک کی سرکاری زبان ہے اور پڑھانے والے تمام انگریزی بولنے والے ہیں اور اس سے بہت فرق پڑتا ہے طالب علم سن کر بولنا سیکھ جاتے ہیں اور اگرچہ یہاں بھی لکھنا کسی حد تک کمزور ہے لیکن بول چال بہت اچھی ہے۔ تعلیم کے میدان میں ہمیں ترقی کرنی ہے تو ہمیں بے شمار طریقے بدلنا ہوں گے۔اساتذہ کے چناؤ میں اساتذہ کی تربیت میں اساتذہ کو سہولیات دے کر ذہنی طور پر اتنا آسودہ کرنا ہو گا کہ ان کے رویئے طالب علموں کے ساتھ شفقت سے بھرپور ہوں۔ ہمیں اپنے سکولوں کے کلاس رومز میں طالب علموں کی تعداد کم کرنا ہو گی۔استاد پر اتنا بوجھ ڈالیں جتنا وہ برداشت کر سکے سکولوں میں پنکھے‘ صاف پانی‘ کرسیاں‘ میزیں مہیا کرنا ہوں گی۔ یونیفارم پر سمجھوتہ کرنا ہو گا یا تو حکومت ہر بچے کو سال میں کم از کم ایک دفعہ یونیفارم مہیا کرے ورنہ یونیفارم کی پابندی معاف کرنا ہو گی‘ کوئی بھی غریب ماں باپ اپنے تین چار بچوں کے سویٹر اور بوٹ پر ہزاروں روپے خرچ کرنے کے قابل نہیں ہوتے ان کی مجبوریوں کو پوری طرح مد نظر رکھنا ہوگا پرائمری کی سطح پر فیل پاس کے تصور کوختم کرنا ہو گا۔ بچے کی یاداشت سے زیادہ اس کی ذہانت اور معلومات کا امتحان اولین ترجیح ہونا چاہئے بہرحال استاد کی شفقت اورمحبت طالب علموں کو ہواؤں پر کمند ڈالنا سکھا سکتی ہے۔