کبھی کبھی میں سوچتی ہوں

کبھی کبھی میں سوچتی ہوںکہ دنیا ایسی تو نہ تھی جیسے اب ہے یہ دنیا تو بڑی رنگین‘ بڑی سرسبز تھی اسکی محفلوں کا کوئی ثانی نہ تھا جب محفل لگتی تھی تو ہوائیں اور فضائیں بھی گنگنانے لگتی تھیں پارکوں میں بچوں کے قہقہے ہر سو سنائی دیتے تھے اور اصرار کرکرکے گھروں میں دعوتوں پر بلایا جاتا تھا میں سوچتی ہوں کہ یہ دنیا بدل گئی ہے ہر کوئی ماسک کے پیچھے چھپ گیا ہے بہت دور سے ہاتھ ہلا کر سلام دعا کرنے پر اکتفا کر لیا جاتا ہے کوئی ذرا قریب سے بھی گزر جائے تو کنی کترا کر دونوں میں اپنی اپنی راہ لیتے ہیں بچے اُداس ہیں ان کے مشاغل ان سے چھن گئے ہیں پانچ چھ مہینے وہ گھروں میں بند رہے اب سکول کھل گئے ہیں تو بھی کلاس کے کمروں کی حد تک ‘کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ ننھے معصوم جو ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے کلاس روم کی کرسیوں پر مل جل کر بیٹھے ہوئے تھے اب دور دور بیٹھتے ہیں اکثر یہ سوال پوچھتے ہیں دادی کورونا کب واپس جائے گا میں ہمیشہ ان سے اللہ میاں سے دعائیں مانگنے کیلئے کہتی ہوں بچوں کی دعائیں اللہ پاک ضرور سنتا ہے تو میرا دل کہتا ہے کہ دعائیں تو اللہ بڑوں کی بھی سنتا ہے لیکن کوئی اس سے مانگے تو سہی کبھی کبھی میں سوچتی ہوں ہمارا ملک پاکستان تو بہت سے نیک لوگوں کی آماجگاہ ہے پھر ایک خاص دن تمام لوگ باہر گھروں سے آکر دعا کیلئے اجتماعی ہاتھ کیوں نہیں اٹھاتے‘ اللہ تعالی نے اس عجیب و غریب وباءکو ہمارے لئے عبرت کا نشان بنا کر بھیجا ہے توبہ اور دعا کا راستہ بھی بتایا ہے تو پھر کیوں نہیں ہم اور ہمارے تمام علماءباہر نکل کر یا گھروں کے اندر ایک مقررہ وقت پر دعا کیلئے ہاتھ اٹھاتے اور اللہ تعالیٰ سے التجا کرتے کہ اللہ پاک اب تو ہمیں معاف کردے اور اس وائرس کو ختم کر دے جو قریب تر گزرنے سے بھی ایک دوسرے سے چمٹ جاتا ہے کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ امریکہ میں روزانہ ہزاروں لوگ اس وائرس سے مر رہے ہیں تو میں اسکا جواب اپنے دل سے خود ہی لیتی ہوں کہ امریکہ نے ہزاروں بے گناہوں کی راہوں میں کانٹے بچھائے ہیں مسلمانوں کے تاج و تخت چھینے ہیں جھوٹے الزامات لگا کر ہنستے بستے گھروں کو ملکوں کو تباہ کیا ہے سینکڑوں خواتین بیوہ ہو کر اور ہزاروں بچے باپوں کی شکل کو ترستے ترستے زندگی کی ٹھوکروں میں پڑے رہنے کیلئے سڑکوں پر چھوڑ دیئے ہیں اور پھر گوانتاموبے کے قیدی بھی تو امریکہ کے قریب ہی ایسے عذاب میں مبتلا ہیں کہ انسانی عقل ان کی اذیت کے بارے میں سوچ نہیں سکتی تو پھر ایسے میں تو اللہ تعالیٰ وباﺅں کی صورت میں قوموں پر عذاب نازل کرتا ہے پھر میں سوچتی ہوں کہ ہندوستان میں ہزاروں لوگ مرگئے ہیں اور روزانہ اس وائرس کو لے کر مررہے ہیں تو پھر کسی کے دل میں بھی کیوں نہیں آتا کہ اگر ہم مسلمان اور انسان کو جینے اور سانس لینے کا ہی حق دے دیتے ہیں تو شاید تو شاید یہ وبا ان کی جان چھوڑ دے لیکن ایسا نہیں ہے کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ نیٹو کے ممالک میں ہی لاکھوں اموات کیوں ہوئی ہیں اور ہر اس ملک پر اللہ کا عذاب بے آواز عذاب اور قہر کیوں ٹوٹا ہے جنہوں نے کسی طورپر بھی دنیا والوں اور دنیا کے بے سہارا اور مظلوم لوگوں پر ظلم روا رکھا ہے کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ طاقتورتو عدالتوں کے کٹہروں سے بھی سرخ رو ہو کر آزادی کا پروانہ لےکر آجاتے ہیں تو ان کا حساب آخر کب ہوگا لیکن جب میں ان کے انجام دیکھتی ہوں تو پھر میرا ایمان اللہ تعالیٰ پر اور بھی زیادہ اسلئے ہو جاتا ہے کہ قدرت کا نظام ایک قرینے سے چلتا رہتا ہے اور وہ ہر ظالم سے بدلہ لیتا ہے لیکن اپنے وقت آنے پر لیتا ہے اور وہ قرآن مجید میں خود ارشاد فرماتا ہے کہ میری پکڑ سخت ہے کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ انسان تو جنوری 2020 تک بھی ستاروں پر کمندیں ڈال کر بیٹھا ہوا تھا مشرق و مغرب اسکی پہنچ میں تھے سمندروں کی گہرائیوں میں پہنچنے کے دعوے انسان نے ہی کئے ٹیکنالوجی کی ترقی کا عالم فضاﺅں اور ہواﺅں کو اپنی مٹھی میں بندکر لینے کے برابر ہوگیا تھا تو میرا دل کہتا ہے کہ پھر کیا ایسا ہوگیا کہ ٹیکنالوجی کئی مہینے گزرنے کے بعد کسی کے کام نہیں آئی وہ بڑے بڑے امیر ترین لوگ بھی اس نامعلوم وائرس سے خاک میں مل گئے جنہوں نے کبھی بھی ایسی بے کسی کی حالت میںمرنے کے بارے میں نہیں سوچا تھا کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ یہ طاقتور ملک کیوں کہتے ہیں کہ فلاں شہرہمارے نشانے پر ہے فلاں شہر ہمارے ایک راکٹ کی مار ہے‘ ہم پلک جھپکتے ہی تباہ کرنے پر قادر ہیں اور افغانستان‘ یمن‘ فلسطین کشمیر تو ایسا نشانہ بنایا گیا ہے کہ یقینا اللہ تعالیٰ نے انہی مظلوموں کی آہیں سن لی ہیں تو پھر جب انسان قادر ہوگیا ہے اپنے دشمنوں کو نشانے پر رکھنے پر اور دنیا میں انسانیت کو مٹانے پر تو آج ایک معمولی سے وائرس نے سب کے نشانے کیوں خراب کر دیئے ہیں آج کوئی راکٹ کوئی تیزرفتار جہاز‘ کوئی دوا کوئی علاج کیوں نہیں کارگر ہو رہا کیا ہمیں اللہ سے معافی مانگنی چاہئے اور میرے دل سے ہر بار یہی آوازآتی ہے کہ ہمیں اجتماعی طورپر اللہ پاک سے معافی مانگنی چاہئے اور امید بھی رکھنی چاہئے کہ وہ ہمیں اور ہمارے گناہوں سمیت ضرور معاف کر دے گا اور شاید کسی نیک انسان کے اس اجتماع میں موجود ہونے سے پوری دنیا کی عذاب میں مبتلا سزا ختم بھی ہو جائے گی کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ گھر سے باہر نکلنے کے راستے کیوں مسدود ہوچکے ہیں زندگی کتنی بے رونق اور بدمزہ کیوں ہوگئی ہے کیوں نہیں کوئی دروازہ کھٹکتا ہے نہ کوئی مہمان آتا ہے نہ کوئی ہاتھ ملاتا ہے اور گلے ملنے کا تصور بھی شاید مستقبل میں ختم ہوتا ہی نظر آرہا ہے تو میرا دل کہتا ہے کہ مغرب میں لوگ تو پہلے ہی بیگانہ اور اپنی دنیا میں گم تھے لیکن اب تو بیگانگی خوف ‘ اجنبیت اورڈر میں تبدیل ہوچکی ہے امریکہ کے بارڈر بند ہیں کینیڈا نے بھی اپنے ویزے منسوخ کئے ہوئے ہیں کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ کیا کبھی زندگی دوبارہ سے چل پڑے گی کیا کبھی بچے اپنے دوستوں کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر جھولا لے سکیں گے اور بوڑھے بزرگ لوگ گھنٹوں ٹولیوں میں بیٹھ کر گپیں لگا سکیں گے اور میرا دل جواب دیتا ہے انشاءاللہ ایک دن دنیا پھر سے رواں دواں ہو جائیگی۔