یہ 8اکتوبر 2005ءکی ایک چمکیلی صبح تھی۔صبح کے پونے نو بجے تھے اور رمضان المبارک کا مقدس مہینہ شروع ہوا تھا کہ اچانک مظفر آباد،باغ،وادی نیلم، چکوٹھی اور دیگر علاقوں پر قیامت ٹوٹ پڑی۔خوفناک گڑ گڑاہٹ کے ساتھ آنے والے زلزے نے ہر طرف تباہی مچا دی آزاد کشمیر اور خیبر پختونخوا کی15تحصیلیں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔ریکٹر سکیل پر زلزلے کی شدت 7.6تھی اور اس کا مرکز اسلام آباد سے 95کلو میٹر دوراٹک اور ہزارہ ڈویژن کے درمیان تھا ۔ایک ہی جھٹکے میں لاکھوں مکانات زمین بوس ہو گئے۔ایک لاکھ سے زیادہ افراد ملبے تلے دب کر جاں بحق ہوگئے۔سوالاکھ سے زیادہ زخمی ہو گئے جبکہ 30لاکھ افراد بے گھر ہو گئے۔سات ہزار سے زیادہ تعلیمی ادارے اور تین ہزار آٹھ سوسینتیس کلو میٹر طویل سڑکیں تباہ ہو گئیں۔سب سے زیادہ تباہی مظفر آباد میں ہوئی جہاں مکانات،سکول ،کالج،یونیورسٹی ،دفاتر ، ہوٹل ،ہسپتال،مارکیٹیں اور پلازے ملبے کا ڈھیر بن گئے۔یہاں پچاس ہزار سے زیادہ افراد جاں بحق اور ہزاروںزخمی ہوئے۔پانچ لاکھ افراد گھروں سے سڑکوں پر آگئے8اکتوبر 2005ءکے زلزلے کو 15سال بیت چکے ہیں مگر متاثرہ لوگوں کی آہوں اور سسکیوں کی بازگشت آج بھی سماعتوں سے ٹکرا کر ماحول کو افسردہ بنا دیتی ہے۔آزاد کشمیر میں نیلم ،مظفر آباداور باغ کے اضلاع عملاً مفلوج ہوگئے تھے۔ضلع راولاکوٹ بھی بُری طرح متاثر ہوا تھا۔15لاکھ کی آبادی گھروں سے محروم ہوگئی۔آزاد کشمیر کے علاوہ بالاکوٹ خیبر پختونخوا میں بھی ہولناک تباہی ہوئی اس روز سکولوں میں بیٹھے طلبہ وطالبات اپنے تعلیمی اداروں کی چاردیواری کے اندر ہی ابدی نیند سوگئے تھے اور جو بچ گئے تھے انہیں چھتوں اور دیواروں نے اس طرح دبوچ لیا کہ باہر نکلنا محال ہو گیا تھا قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کے علاوہ سرکاری ونجی املاک کے نقصان کا تخمینہ 125ارب روپے بتایا گیاتھا سابق خاتون وزیر شریں وحید،سابق وزیر خان وحید خان،خواجہ عثمان ،سابق اسپیکر اسمبلی سردار ایوب خان سمیت کئی نامور شخصیات جاں بحق ہونے والوں میں شامل تھیں ۔آزاد کشمیر کے موجودہ وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان کے خاندان کے دودرجن افراد بھی لقمہ اجل بن گئے تھے۔کئی گاو¿ںاور قصبے صفحہ ہستی سے مٹ گئے اور مقبوضہ کشمیر میں دو ہزار کے قریب افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔آزاد کشمیر کے متاثرہ علاقوں میں افراتفری اور کسمپرسی کا عالم تھا۔آزاد کشمیر وخیبر پختونخوا کے زلزلے متاثرہ علاقوں میں ملکی وغیرہ ملکی تنظیموں نے متاثرین کی دل کھول کر امداد کی اور انفراسٹرکچر کی بحالی کے لیے بھی بین الاقوامی امداد وافر مقدارمیں ملی لیکن متاثرین آج بھی مطمئن نہیں ہیں۔زرداری دور میں آزاد کشمیر سے 55ارب روپے کے فنڈ کی واپسی سے کشمیریوں کے جذبات مجروح ہوئے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ آفتوں اورمصیبتوں میں کی ہی کسی قوم کی طاقت سامنے آتی ہے ۔ اس سانحے میں بھی قوم نے ایک دوسرے سے بڑھ کر مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کی اور زلزلہ زدگان کی بے لوث مدد کی مثالیں قائم کیں۔ تاہم جو کمزوریاں دیکھنے میں آئیں وہ ایسے سانحات اورواقعات کی صورت میں ہنگامی اقداما ت کی سست رفتاری ہے جس کے باعث کسی بھی سانحے میں جانی نقصان بڑھ جاتا ہے۔ اگر موثر اور منظم انداز میں فعال اقدامات کیلئے پہلے سے ایسی ہنگامی صورتحال کا مقابلہ کرنے کی منصوبہ بندی کی جائے تو قدرتی آفات اور سانحات سے جانی نقصان کو کافی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ اس مقصد کیلئے کئی ادارے وجود میں آچکے ہیں اور ان کی کارکردگی بھی تسلی بخش ہے تاہم بہتری کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے اس لئے ان اداروں کو جدید خطوط پر استوار کرکے ان کی کارکردگی کو مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے اس کے ساتھ ساتھ بھاری مشینری کی کمی بھی 2005ءکے زلزلے کے بعد امدادی کاموں کے دوران محسوس ہوئی اگر بھاری مشینری دستیاب ہو تو بہت سے ایسے حادثات کی صورت میں جانی نقصان کو کافی حد تک کم کیا جا سکتا ہے ۔ متاثرین کی آباد کاری اور ان کو دوبارہ بنیادی سہولیات کی فراہمی بھی وہ اہم مرحلہ ہے جس میں خاطر خواہ کامیابی اس وقت ہی مل سکتی ہے جب موثر منصوبہ بندی کی گئی ہو ۔