قوموں کی تاریخ میں ایسی شخصیات بہت کم ہوتی ہیں جو مرنے کے بعد بھی زندہ رہتی ہیں خیبر پختونخوا کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ایسے کئی نام ہیں جو اپنی خدمات کی وجہ سے دنیا میں نہ ہونے کے باوجود یاد کئے جاتے ہیں جنہوں نے اس پسماندہ صوبے کی بے لوث خدمت کے ساتھ ساتھ صوبے کی ترقی میں ہمہ جہت جدوجہد کی۔معاشرے کی ہر دلعزیز سماجی شخصیات کو یاد رکھنا اور ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنا زندہ معاشروں کا خاصہ ہے دنیا میں وہی اقوام زندہ رہتی ہیں اور ان کی اقوام کا چرچا ہوتا جو اپنے ہیروز کو یاد رکھتی ہیں ایک شہر آرزو کا ایک نامور خاندان جو تجارت اور کاروبار سے وابستہ چلا آرہا ہے، اندرون شہر پھیلا ہوا ہے ، شہری اسے صدیقی خاندان کے نام سے جانتے ہیں،اس خاندان نے بھی تحریک پاکستان میں حصہ لیا غلامی کے اندھیروں میںآزادی کی شمع فروزاں کی، اس خاندان سے تعلق رکھنے والی شخصیات میں ایک نام خواجہ صفدر علی محمد صدیقی کا بھی ہے جو 1865میں پیدا ہوئے ان کے والد کا نام حافظ علی محمد تھا جو معروف مینا بازار پشاور میں مقیم تھے اور تجارت کے کاروبار سے وابستہ تھے ۔خواجہ صفدر علی کی ماں بولی ہندکو تھی اس کے علاوہ پشتو، اُردو، انگلش، فارسی بھی بول اور سمجھ لیتے تھے انہوں نے پرائمری تعلیم شہر کے ایک سکوں سے حاصل کی بنیادی طور پر وہ کاروباری خاندان سے تعلق رکھتے تھے اس لئے تعلیم پر زیادہ توجہ نہ دے سکے اور شروع ہی سے اپنی دکان سے وابستہ ہوگئے۔مشہور مسجد قاسم علی خان کے نیچے انکی دکان تھی ،دکان میں مختلف قسم کے نوادرات تھے جن میں کراکری،لنگی، دری،ٹوپی، واسکٹ ،جائے نماز اور دوسری اشیاءشامل تھیں۔خواجہ صفدر گورنمنٹ کنٹر کٹرتھے جنرل آرڈر سپلائر تھے آپ نے اپنی دکان میں وزیٹر بک بھی رکھی تھی چونکہ پشاور وسط ایشیا کا گیٹ وے تھا لہٰذا یہاں انگریز، چینی،عربی، کابلی اور ہندوستانی سیاح آتے اور اس دکان سے مختلف قیمتی نوادرات خرید کر لے جاتے وہ وزیٹربک میں اپنے تاثرات بھی درج کرتے،یوں غیر ملکی سیاحوں سے واسطہ پڑا،جس سے آپ کے احساسات ،مشاہدات اور تجربات میں اضافہ ہوتاگیا اور مختلف زبانیں بھی سیکھ لیں،شروع میں آپ نے انگریز سرکار سے بنا کر رکھی،برٹش حکومت اور مسلمانوں کے درمیان پل کا کردار ادا کیا، جسکی وجہ سے آپ کو تاج برطانیہ کی طرف سے خان کا خطاب ملا لیکن جلد ہی آپ نے محسوس کر لیا کہ فرنگی استعماراور ہندومسلمانوں سے مخلص نہیں ‘ دونوں قوتیں مسلمانوں کو ہمیشہ ہمیشہ کےلئے غلامی کی زنجیروںمیں جکڑ ناچاہتی تھیں،جب صوبہ سرحد میں مسلم لیگ کی آواز گونجی تو آپ کے کانوں سے بھی ٹکرائی،قصہ خوانی میںجلسے جلوسوں میں شریک ہوئے جس کی وجہ سے آپ کے نظریات میں نمایاں تبدیلی رونما ہوئی اور یوں آپ لیگی بن گئے، لہٰذا آپ نے خان کا خطاب واپس کر دیا،بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح بھی آپ کی دکان پر تشریف لائے تھے اور چند نوادرات کی خریداری کی تھی ،خواجہ صفدر صدیقی نے 1946کے انتخابات 1947کے ریفرنڈم میں اہم کردار ادا کیا، مینا بازار کوچی بازار ، چوک ناصر خان، شاہین بازار ، جھنڈا بازار،کریمپورہ بلکہ پورے اندرون شہر میں لیگ کے حق میں مہم چلائی،ان دنوں میں شاہین بازار میں مسلم لیگ کا دفتر بھی کھولا، یوں تحریک پاکستان جب کامیابی سے ہمکنار ہوئی تو ہر طرف جشن کا سماں تھا اور اندرون شہر کے رہائشیوں نے آپ کو مبارکباد دی،آپ کی نوادرات پر مشتمل دکان کی وجہ سے گورنر ہاو¿س بھی بلایا جاتا تھا،آپ غیر ملکی مہمانوں اور وفود کو حکومت کی طرف سے تحفے تحائف دیتے تھے ،نوادرات کی دکان اور تحریک پاکستان کے کارکن کی حیثیت سے آپ کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا جس میں ڈاکٹر حکیم چند،میاں خادم شاہ کاکاخیل، نواب آف دیر،میئرآف چترال،آغابزرگ شاہ ،شیخ محبوب علی ، آغالال شاہ،میاں شریف حسین اور دوسرے بھی شامل تھے والی سوات، آم دربند ،فرید خان، نواب شیخ محبوب علی، آغا بزرگ شاہ بھی آپ کی دکان پر تشریف لائے تھے جب آپ بیمار ہوتے تھے تو ڈاکٹر امام علی،ڈاکٹر حکم چند،ڈاکٹر یوسف علی،ڈاکٹر حکیم اللہ خان سے علاج کراتے تھے، اپنے تعلقات کو بروئے کار لاتے ہوئے شہر مشاہیر کی خوب خدمت کی اور شہر کے مسائل بھی حل کروائے،جھگڑوں اور تنازعات کا آپ پائیدار حل تلاش کرتے،کئی دشمنیوں کو دوستی میں بدلا،آپ کی نرم خوئی اور معاملہ فہمی زبان زد عام تھی،امیر غریب سے یکساں سلوک کرتے، قول وفعل میں تضادنہ تھا،ٹھنڈے دل ودماغ کے انسان تھے،وہ مختلف پہلوو¿ں پر غور وخوض کرتے،یہی وجہ ہے کہ اپنے علاقے میں کئی کامیاب جرگے بھی منعقد کئے۔خواجہ صفدر علی صدیقی اپنی زندگی کے نشیب وفراز دیکھنے کے بعد اپنے چاہنے والوں کو داغ مفارقت دے گئے اور اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔