سات آٹھ دہائیاں پہلے مغرب کے ہر ملک کے لئے بغیر ویزا کے آنے کی اجازت دے دی جاتی تھی اگر کوئی ملک بہت سخت پالیسی بھی اس ضمن میں رکھتا تو اپنے ہوائی اڈوں پر ویزے کا ٹھپہ لگا دیتا تھا یہی وجہ تھی کہ پاکستان سے کئی ایسے لوگ بھی برطانیہ ‘ فرانس اور امریکہ پہنچنے میں کامیاب ہوئے جو مالی طور پر بھی غریب تھے اور تعلیمی طور پر بھی کسی ڈگری کے حامل نہیں تھے ‘مغرب میں زندہ رہنے کے لئے سخت محنت کرنا پڑتی ہے ‘مواقع تو آپ کے قدموں میںلپٹنے کے لئے بے قرار ہوتے ہیں بس محنت اور کوشش انسان کی اپنی ہوتی ہے ‘ محنت کے لئے کسی امارت اور کسی کا غذ کی ڈگری کی ضرورت نہیں ہوتی یہی وجہ ہے کہ جو لوگ نوجوانی میں مغرب پہنچے انہوں نے سخت ترین محنت کرکے اپنا مقام بنایا اور بے انتہا دولت کمائی آج ان تاریخوں میں یا تو وہ اس دنیا میں نہیں ہے یا ریٹائرڈ ہو کر محل نما گھر میں اچھی زندگی گزار رہے ہیں ‘البتہ ان کی اولادیں وہ بڑے بڑے فوڈ سٹورز ‘کا رخانے اور شاپنگ مالز چلا رہے ہیں جوان کے باپ داد نے ایسی محنت شاقہ سے بنائے ہیں جو کسی کہانی کا حصہ لگتے ہیں ‘مغرب کی ترقی کا راز ان کے مضبوط انتظامی ڈھانچے‘ عوام کی محنت اور اس محنت میں ہی خوشحالی اور ترقی کے کئی راز اور بھید پوشیدہ ہیں لیکن ہم مشرق میں اور خاص طور پر پاکستان میں اس راز اور بھید کو جان نہیں سکتے کیوں کہ مشرق میں تو چین بھی ہے جاپان بھی ہے کوریا اور ملائیشیا بھی ہے ‘ سنگاپور بھی ہے جو مغرب جتنی محنت کا راز پا کر اپنے عوام کو خوشحالی کا لبادہ اوڑھ چکے ہیں میں نے اپنی طویل ترین سروس کے بعد پاکستان کے مختلف محکموں کی ناپائیداری کا جو راز پایا ہے وہ بڑا سادہ اور آسان ہے کہ ہمارے ہرسرکاری محکموں پر ایک شخص ایسا بیٹا ہوتا ہے جو اس کا بلا شرکت غیرے مالک ہوتا ہے جب ہم محکموں کی پاکستان میں بات کرتے ہیں تو میری مراد سرکاری محکمے ہیں جہاں ایک شخص حکمرانی کے فرائض سر انجام دیتا ہے محکمہ چھوٹا ہو یا بڑا ایک صوبے کے شہر میں ہویا ملک کے چاروں صوبوں کے مختلف شہروں میں بٹا ہوا ہے و ہ شخص ہر شہراور ہر صوبے کے شہر کے ذیلی ادارے پر فون کے ذریعے اپنے احکاما ت پر عملدرآمد کرواتا ہے وہ شخص محکمے میں چارج سنبھالتے ہی تمام اپنے سامنے بیٹھے ہوئے سینئر اور پروفیشنل لوگوں سے امید رکھتا ہے کہ وہ صرف خاموشی سے اس کی بات سنیں وہ جو فرمارہا ہے وہ ہی حرف آخر ہے نہ اس سے پہلے کوئی نظر آتا ہے اور نہ ہی اس کے بعد کوئی مشورہ کوئی رائے اس حرف آخر کو بدل سکتی ہے اور یہ کہ جو کہہ دیا گیا ہے اس پر گھنٹوں میں عملدرآمد بھی ہو جانا چاہئے حیرت تو اس وقت ہوتی ہے کہ اس فرد واحد کے احکامات کی تعمیل انتہائی عجلت میں ہو رہی ہوتی ہے سب کو علم ہوتا ہے کہ احکامات غلط ہیں اور محکمے کے نقصان کا آغاز ہو گیا ہے ایسا نہ ہوتا تو اچھا ہوتا لیکن اس ایک شخص کے سامنے گونگا اور بہرہ بن کر بیٹھنا پڑتا ہے اس لئے کہ اگر کوئی شخص اس کی گفتگو میں بول پڑا اپنی اچھی اور پروفیشنل رائے دینے کی کوشش کر بیٹھا تووہ اس فرد واحد اختیار دار کا سب سے بڑا دشمن گردانا جائے گا اور وہ کسی قسم کی بھی تعزیری کاروائی کے لئے تیار رہے ‘میں اپنے محکمہ میں ایسے کئی احکامات کی گواہ ہوں جو غلط تھے جن پر عملدرآمد ہو ا اور جن لوگوں نے آنکھ کی جنبش سے بھی اس حکم کی عدولی کی وہ زیر عتاب ٹھہرے کہ جب تک وہ خود ریٹائر نہ ہوگئے یا وہ فرد واحد کسی دوسرے محکمے کو درست کرنے کےلئے منتخب نہ ہو گیا ‘ ہم نے ملک میں ہر محکمے کے ساتھ بہت سے ایسے افراد کے ذریعے بربادی مچائی ہے کہ جن کا مزاج ہی اس محکمے اور کام کےلئے مناسب نہیں ہوتا اور کسی بھی صورت وہ اس منصب یا محکمے کےلئے موزوں نہیں ہوتے جس کا نتیجہ نہ صرف متعلقہ محکموں کی تباہی کی صورت میں سامنے آتا ہے بلکہ دوسری صورت میں محکموں کی کارکردگی متاثر ہونے کے نتیجے میں عوام خدمات کی فراہمی میں تعطل آجاتا ہے ۔آپ اور میں گواہ ہیں کہ ہمارے سرکاری دفاتر میں ترقی کا میرٹ کیا ہے سفارش اور اگر یہ بلا آپ کے پاس نہیں ہے تو خوشامد ‘جو ہر کمزور انسان کے پاس وافر ہوتی ہے اس خوبی کا استعمال کرکے کمزور انسان جواپنی پسند کا فائدہ اٹھا سکتا ہے اور آفرین ہے ان پر بھی جوسربراہ ہوتے ہوئے بھی اس خوبی سے مالا مال ہونے کا شرف حاصل کرتے ہیں مغرب کے اداروں پر کوئی سیاسی اثر و رسوخ کا سوچ بھی نہیں سکتا کوئی بغیر محنت اور کوشش کے کسی محکمے میں زیادہ دیر تک ٹھہر نہیں سکتا اور بغیر کام تو کوئی کسی کرسی پر بیٹھ نہیں سکتا ہر دن نیا دن ہوتا ہے ہر دن امتحان کی طرح ہوتا ہے وہی کامیاب ہوتے ہیں جو محنت اور کوشش کرتے ہیں بعض اوقات ان کو یہاں قدرت ایسے مواقع بھی دے دیتی ہے کہ وہ سیڑھیاں پھلانگتے ہوئے سب سے اوپر پہنچ جاتے ہیں اس میں سینئر جونیئر کا کوئی کمال نہیں ہوتا صرف محنت کا میٹھا پھل کھانا ہوتا ہے ان ممالک میں بیٹھ کر ان کے ترقی کے رازوں کو جاننا شروع کر دو تو حیرتوں کا سمندر ہے اور اس میں تیر کر جانا ہے ایک سائن بورڈ بھی سڑک پر لگاہوا ہے تو دہائیاں گزر جاتی ہیں برف کے طوفان ہوں یا سونامی آ جاتے وہ بورڈ ہلتا تک نہیں سکول ٹیچر ہے تو وہ صرف بس سر سے پاﺅں تک ٹیچر ہے اور ہر محکمے کے لوگ کسی ڈی جی یا ڈائریکٹر کی شکل تک نہیں دیکھتے ایک پالیسی میں ایک رول ہے اور ایک کام ہے جو آپ کے ذمہ ہے وہ آپ نے کرنا ہے اس لئے کسی بھی محکمے کا بیڑہ غرق نہیں ہوتا جتنے بیڑے ہمارے ملکوں میں سمندر برد ہوتے رہتے ہیں مغرب کے لوگ بھی اپنے ماضی کو اور ماضی کے ہیروز کو ہم سے زیادہ یاد کرتے ہیں ان کے دن مناتے ہیں لیکن کوئی بھی نہیں کہتا کہ ہمیں ان کی طرح محنت کرنا ہے وہ ان کو اپنے ملک کے ان مول ہیرے سمجھ کر یاد کرتے ہیں اور محنت لگن تو سب کر رہے ہیں پرانی نسل اپنا کام نئی نسل کو ایسے سونپتی ہے کہ محکمے مضبوط تر اور جدید تر ہوتے جاتے ہیں اور ہم کیا کر رہے ہیں ۔ ہمارا ہرمحکمہ ایک شخص کی شکل دیکھتا ہے وہ کب خوش ہوتا ہے وہ کب خفا ہوتا ہے وہ کون سا کام پسند کرتا ہے وہ کس کو پسند کر تاہے کس کو نا پسند کرتا ہے ‘اس کو کس گاڑی میں بیٹھنا پسند ہے کسی ڈرائیور کا وہ انتخاب کرے گا اس کے گھر میں کتنے نوکر کام کریں گے اور نہ جانے کیا کیا۔‘ افسوس صد افسوس نہ جانے اپنے پیارے ملک کے ساتھ ہمارا کھیلواڑ کب بند ہو گا ہم کب تک یہ سر براہی کے نام پر اپنے اداروں کو ہتھوڑوں سے مار مار کر توڑتے رہیں گے اور کب تک محب وطن لوگ زبانوں پر تالے لگاکر حقیر الفاظ سنتے رہیں گے صرف اس ڈر سے کہ ان کو نوکری یعنی رزق سے نکال کر باہر نہ کر دیا جائے ہمیں سوچنا چاہئے اور اپنے اپنے اداروں میں پالیسی ‘ رولز اور کام کو معیار بنانا چاہئے۔