افغانستان ہمارا قریبی ہمسایہ اور برادر ملک ہے اور جب سے ہم آزاد ہوئے ہیں افغانستان کے اندرونی حالات اور اس کی خارجہ پالیسی پاکستان پر شدید انداز میں اثر اندازہوتی رہی ہے۔ظاہر شاہ کا دورہو یا پھر نور محمد ترہ کئی سردارداو¿د ہوں یا پھر حفیظ اللہ امین،ببرک کارمل ہوں یا پھر نجیب اللہ کا دور ۔افغانستان میں ماضی میں سوویت یونین اوراب بھارت اور امریکہ کے اثرات نہ صرف پاکستان بلکہ خطے بالخصوص وسط ایشیاءکو متاثر کرتے رہے ہیں۔سوویت یونین کے انتشار کے بعد حالات بدلے لیکن افغانو ں کی باہمی لڑائیاں بھی مسئلے کے نتیجہ خیز حل کی طرف قدم نہ بڑھا سکیں۔ایسے میں امریکہ بھی یہاں آدھمکاتب سے اب تک دنیا کا یہ اہم ترین خطہ بدامنی ‘سازشوں‘ دہشت گردی اور خانہ جنگی کا شکار چلا آرہا ہے۔لیکن اللہ کا شکر ہے کہ اب سرنگ کے دوسرے سرے پر کچھ روشنی نظر آرہی ہے شدید مشکلات کے بعد انٹر افغان ڈائیلاگ کا آغاز ہو گیا ہے اگرچہ تاریخی طور پر برطانیہ‘ سوویت یونین اور پھر امریکہ قابو پانے یا اپنا کنٹرول رکھنے کی کوشش کرتے رہے ہیں لیکن کسی کو بھی کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔افغانوں کی جدو جہد نے دنیا پرواضح کر دیا کہ وہ کسی کے زیر تسلط نہیں رہ سکتے۔اس صورتحال سے وسط ایشیائی ممالک اور پاکستان جو افغانستان کے ہمسائے ہیں ہی دراصل صحیح معنوں میں امن کے داعی اور خواہش مندہیں۔کیونکہ پورے خطے کے ثقافتی ،سیاسی ،معاشی ودفاعی حالات اس مسئلے سے بہت ہی گہرے انداز میں منسلک ہیں۔باقی سب جو ہیں وہ صرف عالمی سیاسی شطر نج میں اپنی اپنی بازی لگا کر ایک دوسرے سے سودا بازی کرتے ہیں اور نقصان افغانستان اور اسکے ہمسائیوں کا ہوتا ہے افغانستان کے ہمسائیوں میں پاکستان‘ چین‘ ایران‘ ترکمانستان‘ تاجکستان اور ازبکستان شامل ہیں۔خوش قسمتی سے عمومی طور پر یہ سب ممالک افغانستان میں امن کے حامی ہیں۔حالات وواقعات نے اس معاملے میں پاکستان کے سر پر سب سے بڑی ذمہ داری ڈال دی ہے،لہٰذا یہ ضروری ہے کہ پاکستان اس مسئلے کے حل کےلئے نہ صرف بھارت،امریکہ اور روس کے پینترے دنیا کے سامنے رکھے۔افغانستان کے ایک اہم بلکہ وسط ایشیاءکا سب سے بڑا اور آبادی والاملک ازبکستان ہے اگر حقیقت کی نظر سے جائزہ لیا جائے تو ازبکستان اس سے براہ راست متاثر ہوتا ہے کیونکہ افغانستان کے شمال میں بھاری تعداد میں ازبک رہتے ہیں جو افغانستان کے صوبے مزار شریف میں جنرل دوستم کی قیادت میں ازبک رسم ورواج کے تحت اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ان کے رشتے ازبکستان کے شہریوں سے بڑے دوستانہ اور قریبی ہیں۔ازبکستان اپنی آزادی کے پہلے دن سے ہی تین اصولوں پر کاربند رہا ہے کہ افغانستان میں ہونے والی دہشت گردی،انتہا پسندی سے وسطی ایشیاءمیں داخل ہونے سے روکا جائے۔ اسی طرح ازبکستان میں منشیات کو داخل ہونے سے روکنا،وسطی ایشیاءکسی بھی قیمت پر افغانستان کے اندرونی تضادات وجنگ کے باعث اپنے معاشرے کو اسلحے سے پاک رکھے۔دوسرے یہ کہ افغان مسئلے کا حل پر امن اندازمیں سیاسی اقدامات سے کیا جائے اور کوئی ایسا فیصلہ افغانوں پر مسلط نہ ہونے دیا جائے جس میں تمام فریق کی رضا مندی شامل نہ ہو۔ان تمام تر فیصلوں کے باوجود ازبکستان کی قیادت نے فیصلہ کیا ہے کہ ازبکستان ہر طریقے سے افغان عوام کے لئے کھانے پینے اور عام ضرورت کی اشیاءکی ترسیل اور فراہمی جاری رکھے۔ازبکستان میں منعقد ہ ایک بین الاقوامی کانفرنس میں اس بات پر زوردیا گیا کہ افغانستان میں بھوک ،ننگ اور معاشی بدحالی کو روکنا ہوگا۔ازبکستان کے موجودہ صدر شوکت میر ضیاءنے جب سے قتدار سنبھالا ہے تب سے افغان مسئلے کے پر امن سیاسی حل کےلئے ازبکستان کی کوششیںمزید تیز تر ہوئی ہیں۔ایک اعلان میں ازبک صدر نے کہا کہ افغانستان مسئلے کا پرامن حل اور افغانستان کی معاشی ترقی ان کے ملک کی خارجہ پالیسی کے دواہم جزو ہیں۔اس پالیسی کے تحت شوکت میر ضیائیف کی صدارت میں تاشقندمیں افغان مسئلے کے حل کےلئے عالمی کانفرنس منعقد کی گئی۔اس امن کانفرنس کا مقصد تھا کہ افغان مسئلے کے حل کےلئے متفقہ اقدامات طے کئے جائیں۔ازبک صدر کی تقریر جوکہ ازبک خارجہ پالیسی کے بارے میں تھی اس کا 90فیصد حصہ افغانستان سے متعلق تھا۔ اس کانفرنس میں جوکہ دو دن تک جاری رہی افغانستان کے صدر اشرف غنی نے شرکت کی ان کے علاوہ 20ممالک اور عالمی تنظیموں کے نمائندوں نے بھی کانفرنس میں شرکت کی۔