لندن: سائنس دانوں نے چین میں تیار شدہ کورونا وائرس ویکسین کو محفوظ قرار دے دیا۔
تفصیلات کے مطابق چین میں تیار ہونے والی کورونا ویکسین سے متعلق سائنس دانوں نے اہم بیان میں کہا ہے کہ چین کی تجرباتی ویکسین محفوظ ہے اور یہ انسانوں میں مدافعتی ردِ عمل پیدا کر رہی ہے۔
چینی کورونا ویکسین کے بارے میں سائنس دانوں کے اس بیان کے بعد کو وِڈ 19 ویکسین سے متعلق ایک نئی امید روشن ہو گئی ہے۔ یہ ویکسین ریاستی ملکیتی ادارے سینوفارم نے تیار کی ہے، تجربے کے دوران ہر رضاکار کو اس کی دہری ڈوز دی گئی تھی جس نے ان کے اندر کو وِڈ نائنٹین کا سبب بننے والے کورونا وائرس (SARS-CoV-2) کے خلاف اینٹی باڈیز بنائے۔
ویکسین لینے کے بعد یہ لوگوں کو مستقبل میں دوبارہ کورونا وائرس کا شکار ہونے سے بچائے گی، یا ان کے اندر شدید بیماری ابھارنے سے روکے گی۔ تاہم سائنس دانوں نے ابھی اس کی تصدیق نہیں کی ہے کیوں کہ یہ صرف ایک ہزار شرکا کو دی گئی تھی۔
ادھر برطانیہ میں وزرا کی جانب سے یہ دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ برطانیہ کو اب اپنی کورونا ویکسین کا استعمال شروع کر دینا چاہیے تاہم سرکار کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں ابھی اتنا ڈیٹا حاصل ہی نہیں ہوا کہ یہ قدم اٹھایا جا سکے، اب تو عالمی ادارہ صحت بھی کہہ رہا ہے کہ 2021 سے قبل کوئی ویکسین تیار نہیں ہو سکتی۔
جریدے دی لینسٹ میں شائع ہونے والے سینوفارم کی ویکسین کے کلینیکل ٹرائل کے پہلے دو مراحل کے نتائج، فائزر اور اس کے جرمن پارٹنر کی ویکسین کے ٹرائلز کے نتائج کے بعد شایع ہوئے ہیں۔
واضح رہے کہ ویکسین ہی کو کورونا کی عالم گیر وبا کے خاتمے کی کلید سمجھا جا رہا ہے کیوں کہ یہ اس بات کی یقین دہانی ہوتی ہے کہ کورونا وائرس لاحق نہیں ہوگا۔ اس لیے تمام تر امیدیں ایک تصدیق شدہ ویکسین کی حتمی تیاری سے جڑی ہوئی ہیں، اور تب تک ماہرین یہ کہتے ہیں کہ سماجی دوری اختیار کی جائے تاکہ وائرس نہ پھیلے۔
کلینکل ٹرائلز کے دوران سینوفارم ویکسین 600 صحت مند افراد کو دی گئی تھی، کسی کو اس سے کوئی غلط ری ایکشن نہیں ہوا، تاہم کچھ رضاکاروں نے انجیکشن کے مقام پر درد کی شکایت ضرور کی جو کہ عام طور سے ہوتا ہی ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا تھا کہ ایک ڈوز کے مقابلے میں دو ڈوز زیادہ طاقت ور تھے۔
یہ ایک غیر فعال ویکسین ہے، مطلب یہ کہ اس میں کو وڈ 19 وائرس شامل ہے لیکن یہ وائرس لیبارٹری میں تیار شدہ ہے اور اسے بعد میں مارا بھی گیا، اس لیے یہ انفیکشن پیدا نہیں کر پاتا۔ اس طرح کی ویکسینز عام ہیں اور یہ انفلوئنزا، خسرہ، جانور کے کاٹے کے پاگل پن کے لیے استعمال ہوتی رہی ہیں۔ تاہم یہ فعال ویکسینز کی طرح طاقت ور قوت مدافعت فراہم نہیں کرتیں اس لیے وقتاً فوقتاً متعدد ڈوز دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔
بیجنگ انسٹی ٹیوٹ آف بائیولوجیکل پروڈکٹس کے سائنسی مطالعے میں معلوم ہوا کہ 60 سال سے زائد عمر کے رضاکاروں میں ویکسین سے قوت مدافعت پیدا ہونے میں زیادہ وقت لگا۔ تاہم باقی سبھی رضاکاروں میں اس سے 7 ہفتے بعد ہی اینٹی باڈیز پیدا ہوئے، اینٹی باڈیز امیون سسٹم کے پروٹینز ہوتے ہیں جو انفیکشن کے خلاف جنگ لڑتے ہیں۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ امیون سسٹم بھی سست ہوتا جاتا ہے اور یہ بیماریوں اور ویکسین پر دیر سے رد عمل دکھاتا ہے۔ اسی طرح بی سیلز کے پیدا کردہ اینٹی باڈیز کو تیار ہونے میں متعدد دن لگتے ہیں۔
اگرچہ یہ ٹرائل سینوفارم نے کیا ہے تاہم دیگر سائنس دان بھی اس کے حوالے سے پرامید ہو گئے ہیں، روسی طبی تحقیقی ادارے سے وابستہ پروفیسر لاریزا روڈینکو نے ایک آرٹیکل میں کہا کہ یہ نتائج حوصلہ افزا ہیں، اگرچہ مزید مطالعے کی ابھی بھی ضرورت ہے یہ جاننے کے لیے کہ آیا یہ ویکسین ٹی سیلز (وائرس پر حملہ کرنے والے سفید خلیات کی ایک قسم) کو بھی متحرک کرتی ہے۔