اجازت کا پروانہ

ایسٹ انڈیا کمپنی کا شمار قدیم ترین کمپنیوں میں ہوتاتھا لندن کے امیر ترین سوداگروں کے اس میں حصے ہوتے تھے نورالدین محمد جہانگیر نے لندن کے رائلز کو اپنے دربارمیں خوش آمدید کہا ان کی آﺅ بھگت کی گئی اور ہندوستان میں ان کے تجارت کرنے کا اجازت نامہ جاری کردیاگیا ملکہ برطانیہ کے نام بادشاہ نے اپنے ایک خط میں اپنی سلطنت کی طرف سے محبت اور عزت کا پیغام بھیجا اور لندن کے تاجروں کو ہر بات اور کام کی اجازت دے دی گئی کہ وہ ہندوستان کے جس ساحل پر اپنے جہاز لنگرانداز کرنا چاہیں کرسکتے ہیں ہندوستان میں جس جگہ رہنا چاہیں رہ سکتے ہیں شہنشاہ جہانگیر نے اپنے تمام گورنرز کو فوری طورپر ہدایات جاری کیں کہ بندرگاہوں پر انگریز تاجروں کو ہر ممکن سہولت اور ریلیف مہیا کیا جائے اور وہ جہاں رہیں جتنی تجارت کریں اوراپنے ملک برطانیہ سے جو چیز بھی منگوانا چاہیں انہیں اس بات کی پوری آزادی ہے دراصل بادشاہ نورالدین جہانگیر نے ملک برطانیہ کو یہ پیغام دیا کہ ہماری دوستی پائیدار ہوگی یہ ایک فیاض بادشاہ کا کسی ملک کی ملکہ کیلئے جذبہ خیرسگالی تھا جسکو آنے والے وقت نے اک ایسی تلخ حقیقت میں بدل دیا کہ تاریخ کا رخ ہی مڑ گیا انگریزوں نے اجازت کے اس پروانے کو ہاتھ میں لیا اور پھر گوا‘ چٹا کانگ بمبئی ‘مدارس غرض ہر بندرگاہ پر ہاتھ پاﺅں پھیلانا شروع کر دیئے ہوسکتا ہے وہ نیک نیتی سے ہندوستان واقعی تجارت کی غرض سے آئے ہوں لیکن بعد میں آنے والے وقتوں میں ہندوستان کی زرخیز زمین‘ سرسبز وشاداب موسم زرعی پیداوار‘ مصالحہ جات‘ خشک فروٹ‘ سونے جواہرات کے ڈھیروں نے ان کی آنکھیں خیرہ کردیں اور ان کے دلوں میں بدنیتی نے ڈیرہ جمالیا اور انہوں نے ارادہ کرلیا کہ یہی رہنا ہے بس نہیں جانا‘ ایسٹ انڈیا کمپنی نے سیکورٹی کے نام پر قلعے بنانا شروع کر دیئے بنگال‘ مدارس بمبئی میں فورٹ ولیم‘ فورٹ سینٹ جارج اور بمبئی کیسل کے نام سے کارخانوں کا وجود آیا‘ انہوں نے وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنی سیکورٹی فورس میں اضافہ کرنا شروع کر دیا اب نورالدین جہانگیر سے بادشاہی نکل کر شاہ جہاں اول شہاب الدین‘ شہزاد خرم کے دور تک پہنچ چکی تھی انگریز ہندوستان گورنمنٹ سے تمام تر سہولتیں اور آرام سمیٹتا ہوا بنگال تک پھیل چکا تھا ہر قسم کی ڈیوٹی سے مبرا سستی ترین لیبر کے ساتھ اسکی تجارت جاری تھی ایسے میں انہوں نے ہندوستان پر قبضہ کرنے کی منصوبہ بندی شروع کردی تھی۔ مغلیہ سلطنت کے شہزادے بھی جفاکش‘ جنگجو اور جری ہونے کی صلاحیتوں سے عاری ہونا شروع ہوگئے تھے کہتے ہیں کچھ نسلیں سخت محنت کرتی ہیں اور دنیا میں اور زندگی میں مقام بناتی ہیں آنے والی نسلیں انکی اس محنت سے کمائی ہوئی بنی بنائی دنیا میں عیش کوشی کرتی ہے اور پھر تیسری نسل اس محنت اور دن رات کی بنائی ہوئی دنیا کو بیچ دینے پر پوری طرح تیار ہوتی ہے ‘مغلیہ سلطنت کے ساتھ ایسا ہی ہوا200سال تک ناقابل تسخیر طاقت کو آنے والے شہزادوں‘ درباریوں ‘ بادشاہوں‘ ملکاﺅں نے آئندہ100 سال ترنوالہ سمجھنا شروع کردیا اور ہر اس علت میں مبتلا ہوگئے جسکو آپ زوال کی سیڑھیاں کہہ سکتے ہیں انگریزوں نے عوام کے ساتھ باقاعدہ جنگ وجدل شروع کیا اور ان کو اپنی طاقت سے فتح کرنے کا کام شروع کردیا بلکہ ہندوستان کی سرزمین کو باقاعدہ اپنی ملکیت سمجھ کر حکمرانی کرنا شروع کردی‘ شاہ جہان باپ سے اچھا حکمران تھا اس نے اپنی حکومت کی ساکھ کو درست کیا جن ریاستوں پر راجپوت قبضہ کر چکے تھے ان کو واپس لینے کی بھرپور جدوجہد کی ہندوستان میں امن بحال کرنے کی کوشش کی انگریزوں کو تجارت کیلئے اس نے وافر سہولیات بہم پہنچائیں شاہ جہان آرٹ کا شوقین تھا تاج محل‘ موروالا تخت اور سونے کا تخت جس پر ہیرے جواہرات لگے ہوئے تھے اسکے ذہن کی تخلیقات تھیں اس کے تین بیٹے تھے اور کئی سالوں سے ولی عہد کا جھگڑا سلطنت میں زیر بحث تھا ایسے میں اس کے ایک بیٹے محمد محی الدین‘ اورنگزیب‘ عالمگیر نے سلطنت پر قبضہ کرلیا اپنے باپ کو قید میں ڈال دیا اس آگرہ کے قلعے میں جہاں بادشاہ صرف تاج محل کو دیکھ سکتا تھا جہاں اسکی چہیتی بیوی دفن تھیں1666ءمیں شاہ جہاں وفات پاگیا اورتاج محل میں ہی دفن کردیاگیا ان سب بے اتفاقیوں‘ جھگڑوں اور شورشوں سے انگریز جیسی چالاک قوم غفلت میں تو نہیں رہ سکتی تھی ان کو سلطنت کے اندر کی کہانیاں معلوم تھیں اور سلطنت کی کمزوریوں سے وہ پوری طرح واقف رہتے تھے دشمن تو گھر کے اندر ہی موجود تھا باہر سے تو کسی نے آنا نہیں تھا اگرچہ ہندوستان میں کئی اقوام آباد تھیں جو مذاہب‘ ثقافت اور معاشرت میں جدا بھی تھیں لیکن اسکے باوجود وہ سب ایک دوسرے کے دوست تھے باہم مل کر رہتے تھے یک دوسرے کے غمی خوشی میں شریک ہوتے تھے ایک دوسرے کی عبادات کا احترام کرتے تھے جب محی الدین محمد اورنگزیب عالمگیر تخت نشین ہوئے تو وہ ایک سخت گیربادشاہ ثابت ہوئے اس نے اپنے باپ دادا پر دادا کے برعکس ہندوﺅں پر دوبارہ ٹیکس لگادیا‘خودمختار ریاستوں کو اپنے زیر کنٹرول کیا اس نے اپنی سلطنت کو وسیع کیا اور اسلام کو ہر سو پھیلانے میں دن رات کام کیا ظاہر ہے ایسے میں اس نے ہندوﺅں کاوہ اعتماد کھودیا جو اس کے پرکھوں کے پاس ہوتا تھا اورنگزیب عالمگیر کے عہد میں انگریزوں کی کچھ سازشوں کے راز فاش ہوئے اور ان کی خراب نیت آشکارا ہونا شروع ہوئی اورانگریزوں کی ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان کے کچھ حصوں پر ناجائز قبضہ کرنے کی کوشش کی ان کی کوششوں کو ناکام بنادیاگیا اور اورنگزیب بادشاہ نے ان کے تجارتی اجازت نامے کو منسوخ کردیا جس کے تحت وہ سارے ہندوستان میں دندناتے پھرتے تھے ایسٹ انڈیا کمپنی کو سخت دھچکا پہنچا اور ہندوستان بھر میں ان کی سونا اگلنے والی تجارت کا وجود سخت خطرے سے دوچار ہوگیا چالاک کمپنی نے عافیت اسی میں جانی کہ گھٹنے ٹیک دیئے جائیں اور اعتماد کو واپس بحال کیا جائے ۔اس نے اثرورسوخ کے ذریعے بادشاہ کے قدموں میں کورنش بجالائے ہوئے اپنے گناہوں کی معافی مانگی۔ وعدے وعید کئے اور اپنا اجازت نامہ واپس لینے میں کامیاب ہوگئی۔ بادشاہ نے ان کو معاف کردیا اب ایسٹ انڈیا کمپنی نے تجارت کا دائرہ کار کلکتہ تک بڑھا دیا انہوں نے دی ہوئی بندگاہوں پر ہندوستان کے تاجروں کو لوٹنا شروع کیا۔اس دوران لندن کی کئی پرائیویٹ تجارتی کمپنیاں بھی ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ آکر ملنا شروع ہوگئیں جن کو ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنے اندر ضم کرلیا اور اس طرح ان کا اثرورسوخ ہندوستان میں ہر دن کے گزرنے کے ساتھ مضبوط ہونا شروع ہوگیا انہوں نے جو تھوڑی سی سیکورٹی فورس بنائی تھی اب وہ بڑھ کر لاکھوں تک پہنچ گئی بلکہ تین لاکھ کے لگ بھگ انگریزوں پر مبنی ایک چھوٹی سی آرمی ہندوستان میں کام کرنے لگی جو بظاہر ایسٹ انڈیا کمپنی کے کارخانوں جہازوں اور لوگوں کی حفاظت کیلئے فرائض سرانجام دیتی تھی لیکن پس پردہ ان کے عزائم مذموم تھے وہ اب ہندوستان پر قبضہ کرنے کاپکا ارادہ کرچکے تھے۔