پٹس برگ: امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ جو لوگ سماجی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور دوستوں وغیرہ کے ساتھ میل جول رکھتے ہیں، ان کا دماغ بڑھاپے میں بھی صحت مند رہتا ہے۔
یہ تحقیق یونیورسٹی آف پٹس برگ اسکول آف پبلک ہیلتھ میں ڈاکٹر سنتھیا فیلکس کی قیادت میں کی گئی جس میں 300 امریکی بزرگ بطور رضاکار شریک کیے گئے جن کی اوسط عمر 83 سال کے لگ بھگ تھی۔
ان بزرگوں کا دماغ کتنا صحت مند تھا؟ یہ جاننے کےلیے سنتھیا اور ان کے ساتھیوں نے ایم آر آئی اور دیگر حساس آلات کی مدد سے تمام رضاکار بزرگوں کے اُن دماغی حصوں کا جائزہ لیا جن کا براہِ راست تعلق یادداشت اور تجزیئے سے ہوتا ہے۔
ان دماغی حصوں کو مجموعی طور پر ’’سرمئی مادّہ‘‘ (Grey Matter) کہا جاتا ہے جبکہ خود سرمئی مادّے میں اہم اعصابی خلیات اور دوسرا حفاظتی مواد شامل ہوتے ہیں۔
دماغی مطالعے کے بعد ماہرین کو معلوم ہوا کہ جو بزرگ ملنسار اور سماجی طور پر زیادہ سرگرم تھے، ان کے دماغوں میں سرمئی مادّہ بہتر تھا اور اس میں زندہ اور فعال اعصابی خلیات بھی زیادہ تھے۔
ان کے برعکس، گوشہ نشین اور میل جول ترک کردینے والے بزرگوں میں یہی دماغی حصہ خاصی کمزور حالت میں تھا جبکہ یہاں زندہ اعصابی خلیات کی تعداد بھی بہت کم دیکھی گئی۔
ویسے تو دماغی خلیات ساری زندگی ہی آہستہ آہستہ ختم ہوتے رہتے ہیں لیکن بڑھاپے کی آمد پر وہ زیادہ تیزی سے مرنے لگتے ہیں جس کا نتیجہ مختلف دماغی اور اعصابی امراض کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے جن میں الزائیمر، پارکنسن اور ڈیمنشیا وغیرہ شامل ہیں۔ بعض مریضوں کو اسی بناء پر فالج کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے۔
ڈاکٹر سنتھیا کا کہنا ہے کہ اگر بڑھاپے میں آپ کا صرف ایک دوست بھی ہو جس کے ساتھ آپ وقت گزار سکیں اور جسے اپنی خوشی غمی میں شریک کرسکیں تو اس سے دماغی صحت پر بہت اچھا اثر پڑتا ہے۔
اگرچہ یہ مطالعہ بہت محدود ہے جس سے حاصل شدہ نتائج کو مزید پختہ کرنے کی ضرورت ہے، لیکن ڈاکٹر سنتھیا کی رائے میں ’’میل جول بڑھانا اور سماجی طور پر سرگرم ہونا کوئی غیر مفید مشورہ ہر گز نہیں، اس پر عمل کرکے اچھے نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔‘‘
یہ مطالعہ تحقیقی مجلے ’’جرنل آف جیرونٹولوجی: سائیکولوجیکل سائنسز‘‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوا ہے۔