ویسے تو انسان مفاد پرست ہوتا ہے اور ساری عمر ہی اس بات کیلئے سرگرداں رہتا ہے کہ مجھے فائدہ ملے میرے بچے اچھے ہو جائیں ‘میرا گھر جنت بن جائے مجھے ساری دنیا کی خوشیاں مل جائیں اور خوش نصیبی میرے گھر کے دروازے پر بیٹھی رہے اور یہ اسکی ذات کی مفاد پرستی ہوتی ہے جس سے شاید اس کے دوست رشتہ دار یا کسی حد تک ہمسائے بھی متاثر ہو جاتے ہونگے لیکن مفاد پرستی جب بڑے پیمانے پر پوری قوم یا ملک کے لوگوں کے ساتھ اپنا لی جائے تو پھر بہت جلد ایسا وقت آجاتا ہے جب اقوام ذلت کے گڑھوں میں گرتی ہی چلی جاتی ہیں ‘سیاستدان اسی مفاد پرستی کے زمرے میں آتے ہیں وہ چاہے مغرب کے ممالک میں بیٹھ کر ترقی یافتہ قوموں کی سیاست کریں یا غریب ممالک کے سیاستدان اپنے غریب اور ان پڑھ عوام کے ساتھ سیاست کا کھیل کھیلیں ‘نتیجہ دونوں کا ایک نکلے گا یعنی مفاد پرستی شامل ہو جائیگی تو ترقی کی منزل تک نہیں پہنچا جاسکے گا چند صدیاں پہلے دنیا نے بڑے عظیم لیڈر پیدا کئے جو نظریئے کی سیاست کرتے تھے چاہے ان کو جیلیں کاٹنی پڑیں ‘ اپنے بچے بیوی قربان کرنے پڑے وہ اپنے نظریئے سے ایک انچ پیچھے ہٹنے پر تیارنہ ہوئے لیکن سیاستدان اور قائدین میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے سیاستدان کبھی قائد نہیں بن سکتا اورقائد کبھی سیاستدن بننے کی کوشش نہیں کرتے گوکہ دونوں کی ذمہ داریوں میں ایسا فرق بھی نہیں ہوتا لیکن سوچ اور نظریئے کی ایک بالکل واضح لکیر اور سمت کا تعین موجود ہوتا ہے ‘مارٹن لوتھر نے افریقہ کی غلام نسلوں پر سیاست نہیں کی نظریہ دیا سوچ کو بدل ڈالنے کا خواب دیکھا جس میں اس نے دیکھا کہ آنے والے سالوں میں ایک ایسا وقت آئے گا جب کالے اور گورے بچے اکٹھے کھیلیں گے اکٹھے تعلیم حاصل کریں گے ‘آپس میں شادیاں کرینگے ‘نفرتوں اور رنجشوں سے بالاتر ہوں گے ‘آج مغرب میں اس کا وہ خواب پورا ہوگیا ہے بلکہ آپ غور سے دیکھیں کہ نفرت بھری آنکھ اور نفرت بھرے دل رکھنے والے انگریزوں کی نسلوں نے افریقن عورتوں سے شادیاں کرلی ہیں اور ملکہ الزبتھ کے گھر ایک افریقن بہو مارٹن لوتھر کے خواب کی عین تعبیر بن کر شہزادی بن گئی ہے ‘نیلسن منڈیلا 26 سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے افریقہ کی آزادی کا خواب بنااور زندگی میں ہی اسکی تعبیر دیکھ لی اور اس کی آنے والی نسلیں یہ تعبیریں مسلسل دیکھتی آرہی ہیں ‘اقبال نے غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی جہالت کی دلدل میں پھنسی ہوئی اپنی بے بسی‘ لاچار اور مظلوم مسلمان قوم کیلئے ایک خواب دیکھا اس خواب کی تعبیر وہ نہ دیکھ سکے ‘زندگی نے وفا نہ کی لیکن ہم آج تک دو قومی نظریئے کی بنیاد پر آزادی کی بے بہا نعمت سے سرشار ہیں ‘قائدین اپنے نظریوں کی جنگیں ہر دور میں لڑتے آئے ہیں ‘ان کی شکست ہی ان کی فتح ہوتی ہے کیونکہ آنے والی نسلیں وہ خوشخبریاں حاصل کرتی ہیں جو وہ نہ سن سکے اور اس بناءپر جو نظریہ وہ چھوڑ کر چلے گئے ہوتے ہیں اس کے برعکس سیاستدان ایک محدود مدت کیلئے محدود عوام کی سیاست کا ذمہ دار بن جاتا ہے اس کا تعلق کسی نظریئے‘ دور رس سوچ‘ دور بینی اور منزل کی نشاندہی کی طرف قطعاً نہیں ہوتا وہ ایک عام انسان کی طرح پہلے اپنے گھر کو بھرنے کی مجبور کوشش کرتا ہے اور وہ اس میں کامیاب ہوتا ہے کہیں وہ اپنے اپنے علاقوں میں ایک خاص نام اور خاص روپ کے ساتھ چھوٹی چھوٹی بادشاہتیں بناتا ہے اپنی چھوٹی چھوٹی رعایا بھی بناتا ہے ان پر حکمرانی کرکے خوش ہوتا ہے ان کی تابعداری کرنے پرپھولے نہیں سماتا‘ا ن کی نافرمانی سے ان کو سزائیں سناتا ہے اور اپنی نامکمل بادشاہت کی انا کی جنگ لڑتا رہتا ہے آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ دوسروں سے بے بہرہ ہوتا ہے کسی کا دکھ سکھ اسکو متاثر نہیں کرتا اسکی ذات اپنے اردگرد طواف کرتی ہے اور وہ ذات کی دنیا میں بہت خوش ہوتا ہے ہاں اگر بیرونی دائرے اسکی ذات کے دائروں سے ٹکرانے کی کوشش کریں تو وہ سمجھتا ہے کہ یہ اسکے مفادات کے اوپر حملہ ہے وہ اس بات پر ردعمل ظاہر کرتا ہے ‘پرانی صدیوں میں بادشاہوں کے ادوار بھی ایسے ہی ہوتے تھے ‘وہ اپنے اور اپنے خاندان کے تاج وتخت بچانے کیلئے عوام کو روند ڈالتے تھے اگر آپ تاریخ پڑھیں تو آپ کو کتنے ہی ایسے بادشاہ تاریخ کے صفحات میں ملیں گے جو اپنے مخالفین کو تباہ کرنے کیلئے ایسے ایسے جواز ڈھونڈ لیتے تھے کہ کوئی ان کے فیصلوں کو چیلنج نہیں کر سکتا تھا اور ماضی قریب میں تو ہٹلر اورسٹالن نے سفاک بادشاہوں کے کردار کو بھی مات دے دی تھی چنگیز خان اور ہلاکو خان کے اقدام وحشت اور بربریت کے زمرے میں آتے تھے لیکن وہ عظیم لوگ جن کے پاس بادشاہی نہ تھی بس رعایا تھی اور وہ رعایا ہی ان کیلئے بادشاہت کا درجہ رکھتی تھی کوئی بادشاہ ان کے غم اور دکھ میں ساری رات مسجدوں میں گڑگڑاتا تھا کوئی عظیم شخص ساری رات جاگ کر اس لئے گزار دیتا تھا کہ کہیں میں کسی فرد کے دکھ سے لاعلم نہ رہوں ‘کوئی عظیم انسان کمزور اور بے بس لوگوں کے گھروں میں جاکر ان کے ضروری کام نپٹاتا تھا ‘دنیا اور آخرت میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جنہوں نے نظریئے کو سامنے رکھا بڑے مقاصد کے کام کئے ‘عظیم کردار کے حامل تھے‘ نظریہ¿ رکھنے کیلئے اور بڑے مقاصد رکھنے کیلئے کسی قوم یا رعایا کی ضرورت نہیں ہوتی آپ کی اپنی ذات ہی عظیم قائد کا روپ دھار سکتی ہے اگر آپ اپنے اپنے وہ رشتے جو آپ میں موجود ہیں اس میں عظیم ہو جاتیں ایک فرماںبردار اولاد‘ محبت کرنے والا شوہر‘ ایک دکھ سکھ کاساتھی ‘ہمسایہ اور اپنی قوم کا ایک اچھا شہری‘ اپنی سوچوں کو اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات سے بالاتر کرلیں اور زندگی میں اوروں کے لئے آسانیاں پیدا کردیں۔