میرا آفس چوتھے فلور پر تھا اور اپنے آفس کی کھڑکی سے خوبصورت اسلام آباد کو میںبخوبی دیکھ سکتی تھی میڈیا کے تھکادینے والے کاموں سے کچھ لمحوں کیلئے جب میں سراوپر اٹھاتی تھی تو دل خوش ہو جاتا تھا سامنے ہی پرائم منسٹر سیکرٹریٹ کی خوبصورت برجوں والی عمارت‘ کانسٹی ٹیوشن ایونیو پر نئی نویلی دوڑتی ہوئی گاڑیاں‘ تازہ اور خوشبودار ہوا مجھے بہت بھلی لگتی تھی پرائم منسٹر سیکرٹریٹ کے ساتھ وسیع و عریض عمارت اسلام آباد کی سب سے بڑی لائبریری کی ہے‘ کتابوں سے بے پناہ محبت مجھے ہمیشہ اس عمارت کے اندر جانے پر اکساتی رہتی تھی کتنی عجیب بات تھی کہ سب سے بڑے نشریاتی ادارے میں کام کرنے کے باوجود لائبریری تک میری رسائی روزانہ کی بنیاد پر نہ تھی وہ ادارہ کہ جس کا نام سنتے ہی تاریخ تعلیم‘ تربیت‘ تہذیب تمدن کتب رسائل اورنہ جانے کیا کیا ذہنوں میں آجاتا ہے اس پانچ منزلہ بلڈنگ میں لائبریری نام کی کوئی شے نہیں تھی کئی سال پہلےBasement کے فلور پر ایک اندھیرا نما کمرہ کتابوں سے بھرا ہوا تھا جسکو ہم محبت بھرے دلوں کے ساتھ آنکھوں میں اتارتے تھے لیکن ایڈمنسٹریشن کو یہ کمرہ ایک آنکھ نہ بھاتا تھا اور آخر ایک دن ایک فرد واحد نے فیصلہ کیا کہ ان محبتوں کو ڈبوں میں بندکیا جائے اور کسی اور یونٹ کے باقی محبت بھرے ڈبوں کے ساتھ رکھ دیا جائے جہاں ایک وسیع و عریض اور خوبصورت ترین لائبریری پہلے ہی ایک اورفرد واحد کے فیصلے کی بھینٹ چڑھ چکی تھی کبھی بھی میں سوچتی ہوں کہ نہ جانے ہمارے ملک میں اداروں کو کمزور اور ایک حد تک مسخ کرنے کے فیصلوں میں ایک دو افراد ہی عقل کل کیوں سمجھ لئے جاتے ہیں۔ تو میں اسلام آباد کی سب سے بڑی لائبریری کی بات کر رہی تھی آخر ایک دن میں نے ہمت کر ہی لی اور پیدل ہی کچھ فرلانگ کا فاصلہ طے کرکے اس وسیع و عریض لائبریری کی وسیع پارکنگ میں پہنچ گئی چلنے کی عادت نہ ہونے سے تھکن کا احساس ہوا ریسپشن پر ممبر شپ لینے کی اپنی خواہش کو افشاءکردیا اور دل میں بے پناہ خوشی کہ اب تو کتابیں ہوں گی اور خوبصورت بستر اور راحت ہی راحت‘ کتابیں پڑھنے والے اور ان سے عشق کرنے والے میری اس راحت کو جانتے ہیں مجھے بتایا گیا کہ شاید1300روپے اور شناختی کارڈ‘ تصدیق کنندہ اور دو تین کچھ اور ضروری لوازمات بھی پورا کرنے کے بعد ہی میں اس لائبریری کی ممبر بن سکتی ہوں میں نے سوچا اتنے زیادہ روپے میں زندگی کے اور لوازمات پر خرچ کرتی ہوں چلو ادھر بھی کچھ خرچہ کر ہی لیتی ہوں کم از کم کچھ نایاب کتابیں تو ہاتھ آئینگی کتابیں دکانوں میں اتنی مہنگی ہیں کہ خرید کے ایک کتاب ہی پڑھی جاسکتی ہے اور صحیح بات ہے کتاب خرید کے پڑھنے کا مزہ بھی کچھ زیادہ نہیں آتا اس دن تو میں واپس آفس آگئی تاکہ لائبریری کے ممبر بننے کیلئے تمام لوازمات جلد از جلد پورے کر سکوں جو میں نے جلدی ہی پورے کر لئے اور دوبارہ کاﺅنٹر پر کھڑی ہوگئی مجھے ویلکم کہا گیا کارڈ کے بارے میں کہا گیا کہ چند دن میں آپ کو مل جائیگا اب میں لائبریری کے اندر جاسکتی تھی واقعی لائبریری بہت خوبصورت تھی البتہ کئی سیڑھیاں طے کرتے کرتے میرا سانس پھول گیا خوبصورت شیلف میں کتابیں دیکھ کے دل کو خوشی ملی بے شمار کتابیں نکال لیں کمپیوٹر پر ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنی پسندیدہ بائیوگرافیز نکلوائیں اور لائبریرین سے بڑے فخر سے کہا کہ جی میں اس لائبریری کی ممبر ہوں یہ دس کتابیں مجھے ایشو کردیں لائبریرین میری اس خود اعتمادی کو دیکھ کر ہکابکا ہی ہوگئی ہوگی لیکن اسکا جواب میرے لئے کسی قیامت سے کم نہیں تھا کہ اس لائبریری میں آپ ہر طرح کی کتاب پڑھ سکتے ہیں لیکن ہاں سامنے پڑی ہوئی میز کرسیوں پر‘ مجھے لگامجھے دھکا دیکر کسی نے گرا دیا ہے یہ کیسے ممکن تھا کہ میں تو صرف ایک کتاب بھی لائبریری کے اندر اتنا جلدی کیسے ختم کرسکتی ہوں اور پھر اس وقت تو میرا پڑھنے کا قطعاً موڈ بھی نہیں میں تو اپنے مزاج کے مطابق وقت طے کرتی ہوں کہ میں نے کب پڑھنا ہے کتاب پڑھنا کوئی مجبوری تو نہیں تھا یہ تو ایک ایسا شوق اضطراب ہے جو تشنہ لب ہی سمجھ سکتے ہیں میں نے ان کے سینئرز سے مل کر اپنے بڑے عہدے اور بڑے ادارے کا کچھ اثر ڈالنے کی کوشش کی لیکن نتیجہ صفر۔ مجھے اپنے1300 روپے‘ اپنی تصویر کھچوانے کا معاوضہ تصدیق کروانے کی تگ دو‘ سب عجیب اور وقت ضائع کرنے کے مترادف نظر آیا اور پھر کبھی سالوں تک میں لائبریری لوٹ کر نہیں گئی البتہ1300 روپے ضائع ہونے کا دکھ آج بھی دل پر محسوس کرتی ہوں آپ سوچیں گے اتنی لمبی کہانی اور وہ بھی مایوسی بھری آپکو سنانے سے کیا حاصل‘ جی ترقی یافتہ ممالک اور ترقی پذیر ممالک میں مجھے کوئی فرق نظر آتا ہے تو وہ صرف اور صرف کتاب ‘علم اور تعلیم کا ہی ہے کئی سالوں کے بعد میں آج پھر کینیڈا میں ہوں مجھے علم ہے کہ یہاں کی لائبریریاں اپنے اندر کتنی شان آن بان رکھتی ہیں اور اپنے قاری کو آگے بڑھ کر کس طرح گلے لگاتی ہیں میرے پاس ہر لائبریری کا کارڈ موجود ہے جہاں جہاں میرا گھر یہاں کینیڈا میں رہ چکا ہے۔ ابھی میں کینیڈا کے ایک نئے علاقے میں آئی ہوں دل بے چین تھا کہ کتابیں پڑھوں اور پھر میں شاندار لائبریری کے دروازے پر کھڑی تھی میں نے دروازے کو ہاتھ تک نہیں لگایا میرے پاﺅں پڑتے ہی میرے لئے دروازہ وا ہوگیا خوبصورت گوریاں کاﺅنٹر پر کھڑی مختلف قومیت ملت اور مذاہب کے لوگوں سے مسکرا کر ان کی کتب بینی کی ضروریات کو پورا کر رہی تھیں چاک و چوبند لائبریری ورکرز ان کتابوں کو دوبارہ شیلف میں لگا رہے تھے جنکو قارئین پڑھ کر یا صرف ہاتھ ہی لگا کر میزوں پر ہی چھوڑ گئے تھے میں نے آگے بڑھ کر گوری کو ہیلو کیا کہ میں ممبر شپ لینا چاہتی ہوں اس نے گرمجوشی کا مظاہرہ کیا اس مقصد کے لئے میں نے اپنی فوٹو آئی ڈی اسکو دے دی اور اس نے دو منٹ میں مجھے میرا ممبر شپ کارڈ میرے ہاتھ مں پکڑا دیا ایک کی چین بھی گفٹ کیا کہ آپ اپنی چابیوں کے ساتھ لگالیں اگر کبھی میں کارڈ لائبریری لانا بھول جاتی ہوں تو یہ کی چین میرا حقیقی چین بن جائیگا اور کتابیں ایشو کروانے میں میری مدد کرے گا میں سن کر حیران ہوگئی کہ گوری مجھے کہہ رہی تھی کہ آپ ایک دن میں پچاس کتابیں ایشو کروا کے گھر لے جاسکتی ہیں CDS 10 لے جاسکتی ہیں اور اتنے ہی دوسرے الیکٹرانک آئٹم لے جا سکتی ہیں جن سے آپکو معلومات حاصل کرنے میں مدد مل سکے تین ہفتے تک آپ یہ واپس کرسکتی ہیں اس سے کئی گنا بڑی اور نایاب لائبریری سے یہاں میری دوستی بہت پرانی تھی میں کتابیں لے کر گھرآگئیں چند دن میں میں یہ کتب پڑھ چکی تھی رات کے تقریباًدس گیارہ بجے بچوں کے ساتھ وال مارٹ جاتے ہوئے میں لائبریری پر رکی لائبریری بند تھی تالے لگے ہوئے تھے ایک کھڑکی میرا انتظار کر رہی تھی جس پر لکھا تھاDrop Box میں نے اپنی دس کتابیں ایک ایک کرکے اس بکس میں ڈال دیں میں کتابیں تین ہفتوں کے اندر واپس کر چکی تھی کتابیں واپس کرنے کیلئے نہ دن کی ضرورت تھی نہ میری موجودگی کی کوئی بھی رات دن کے کسی بھی حصے میں یہ سہل ترین کام کرسکتا ہے کتابوں کو عوام الناس تک پہنچا کر ترقی یافتہ ممالک نے ذہن و دل کو منور کرنے ان کو روشنی پہنچانے کا وہ کام کیا ہے جو ہم نہیں کر سکے۔