اردو ادب سے لگاﺅ رکھنے والے عطیہ فیضی کے نام سے روشناس ہیں کیوں کہ علامہ اقبالؒ کی نسبت سے عطیہ فیضی کا نام ذہنوں میں آجاتا ہے۔ میں خود بھی اردو ادب میں اقبالؒ کے ساتھ عطیہ فیضی کا نام پڑھ کر ان کے متعلق جاننا چاہتی تھیں۔ اچانک مجھے ان کی یہ ڈائری ”زمانہ تحصیل“ کے نام سے مل گئی۔ جو عطیہ فیضی نے 1907-1906ءمیں لکھی تھی۔ عطیہ فیضی کی باقی تصانیف انگریزی زبان میں ہیں ”زمانہ تحصیل“ پڑھ کر میں ادب سے لگاﺅ رکھنے والے قارئین سے عطیہ فیضی کی زندگی کے حالات شیئر کرنا چاہتی ہوں کہ عطیہ فیضی کون تھیں۔ وہ لندن کیوں گئیں اور اقبال سے ان کی ملاقات کیسے ہوئی۔ اردو ادب میں انیسویں صدی کے آخیر تک خواتین کی تحریریں عام نہ تھیں اور خود اپنی کہانی لکھنا، یادداشتیںتحریر کرنا یا سفر کرکے اس کی روداد لکھنا تو گویا ایسا کوئی رواج ہی نہ تھا لیکن عطیہ فیضی نے بیسویں صدی کی پہلی دہائی میں اپنی ڈائری شائع کرواکے ادب کے چاہنے والے حلقے میں تہلکہ مچا دیا۔ عطیہ فیضی1817 میں ترکی کے شہر استنبول میں پیدا ہوئیں جہاں ان کے والد حسن علی فیضی اپنے کاروبار کی وجہ سے رہائش پذیر تھے۔ عطیہ فیضی کی ایک اور بہن نازلی رفیعہ بیگم تھیں وہ بھی صاحب تصنیف تھیں اور انہوں نے اپنی یورپ کی سیر کے بعد ”سیر یورپ“ کے نام سے سفرنامہ تحریر کیا تھا۔ جو اردوب ادب کے اولین سفرناموں میں شمارہوتا ہے۔ اتنا تو قارئین جان گئے ہوں گے کہ عطیہ فیضی کا خاندان ہندوستان کے روشن خیال خاندانوں میں ہوتا تھا اور اس خاندان کے بڑوں نے بیٹوں کے ساتھ ساتھ بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم کیلئے مواقع فراہم کئے۔ اس خاندان کی تمام خواتین تعلیم نسواں کی بڑی حامی تھیں اور یہ تمام بہنیں لکھ کر اور عملی طورپر بھی اس تحریک میں حصہ لیتی رہتی تھیں۔ عطیہ فیضی کو ہندوستان کے مختلف شہروں کے سفر کرنے کے بہت مواقع ملے ایک دفعہ وہ کلکتہ گئیں اور انہیں رابندرناتھ ٹیگور کے گھر میں رہنے کا موقع ملا۔ ٹیگور کی بھتیجی سرلا دیوی گھوشل ان کی دوست تھیں۔ انیسویں اور بیسوی صدی میں کسی مسلمان لڑکی کیلئے ہندوستان سے دور سات سمندر پار جانا اور تعلیم حاصل کرنا اک خواب کی حیثیت رکھتا تھا۔ عطیہ فیضی کو اللہ تعالیٰ نے یہ نادر موقع فراہم کیا اور وہ اپنے ہر نئے دن سے لیکر اپنے ہندوستان پہنچنے تک کی روزانہ کی کہانی عورتوں کے اک میگزین تہذیب نسواں میں بھیجتی رہی۔ یہ ایک سال لندن میں رہنے والے بے تحاشا ہندوستانیوں کے ساتھ شب و روز کے میل ملاپ ، دعوتوں اور سیروں میں بھی گزرا۔ کتاب کے مطالعے سے پتہ چلتا تھا کہ لندن میں رہنے والے ہندوستان کے امیر کبیر اور عالم فاضل لو گ عطیہ فیضی کے لندن میں آکر تعلیم حاصل کرنے پر کسی قدرنازاں تھے۔ ان میں ٹاٹا کمپنی کے جمشید جی ٹاٹا اور ریاست بڑودہ کے مہاراج اور مہارانی بھی شامل تھیں۔ان کے گھروں میں بہت بڑی بڑی پارٹیوں میں عطیہ فیضی کی ملاقاتیں ہندوستان کے دوسرے عالم فاضل لوگوں سے متواتر ہوتی رہیں۔ عطیہ فیضی اپنے ہندوستانی لباس کی اس قدر چاہنے والی کہ اپنے ستر پردہ پر فخر کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں اور ان ہندوستانی عورتوں پر لطیف پیرائے میں تبصرے کرتی ہیں جو ہندوستانی لباس چھوڑ کر مغربیت اختیار کئے ہوئے ہیں۔ عطیہ فیضی کی خوبیاں جان کر مجھے احساس ہوا کہ علامہ اقبالؒ جیسے اعلیٰ وارفع شخص اگر عطیہ فیضی سے دوستی اور علمی وادبی رشتے میں منسلک ہوتے تو پھر عطیہ فیضی بھی اعلیٰ ذوق رکھنے والی خاتون تھیں۔ عطیہ فیضی کی تفصیلی ملاقات اقبالؒ سے مسز سید علی بلگرامی کے گھرپر ہوئی۔ 22 اپریل1907 کی لکھی ہوئی ڈائری کے ورق میں لکھتی ہیں۔ ”آج کیمبرج کی سیر کرآئے اور مسز سید علی کی دعوت میں شریک ہوئے۔ گیارہ بجے ٹرین میں سوار ہوئے اور ساڑھے بارہ بجے پہنچے۔ گاڑی تیار تھی۔ سیدھے مسز سید بلگرامی کے یہاں چلے۔ بھائی جابر راستے میں شریک ہوگئے۔ اچھا چھوٹا سا مکان ہے۔ جیسے اکثر یہاں (لندن) پر ہوتے ہیں۔ جناب سید علی صاحب سامنے نظر آئے اور بیگم صاحبہ اندر تشریف رکھتی تھیں۔ ان لوگوں سے ملنے کا مجھے پہلا ہی اتفاق ہوا ہے۔ مہربان وضع دار لوگ ہیں، مسٹر اقبال بھی تشریف رکھتے ہیں۔ یہ صاحب نہایت درجے عالم فاضل اور فیلسوف شاعر ہیں۔ پرتکلف اور لذیذ ہندی کھانا کھلایا۔ بریانی، شامی کباب زردہ، فیرنی مرچ کا سالن وغیرہ وغیرہ اور کئی قسم کے اچار حتیٰ کہ نان بھی موجود تھے ایسا لگا کہ ہندوستان میں کسی ضیافت میںگئی ہوں ۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔ اقبالؒ اور عطیہ فیضی کی یہ پہلی ملاقات تھی لیکن ان کی بعد کی تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ اقبالؒ ان کو اپنی نظمیں بھیجتے تھے او ر یہ بھی تاکید کرتے تھے کہ وہ ان نظموں کو سرجنی داس نائیڈو کو بھی دکھائیں۔ لیکن عطیہ فیضی کی اور سروجنی داس نائیڈو کی اس تعلیمی سلسلے میں کچھ ایسی ناچاقی ہوئی کہ عطیہ فیضی کے خیال میں سروجنی نائیڈر اردو شاعری کی قدر نہیں کرسکتیں۔ جبکہ سروجنی نائیڈو نے مترجم کے ذریعے اقبال کا کلام سن کر ایسی داد دی تھی جس کی توقع کسی شاعر سے ہی ہوسکتی ہے۔ لندن میں اپنے قیام کے آخیر میں جب عطیہ فیضی یورپ کی سیرکو نکلی تو جرمنی میں وہ اس قیام گاہ پر بھی گئیں جہاںاقبالؒ جرمن زبان سیکھنے کیلئے73 ہائیڈ ہائیڈل برگ میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ عطیہ فیضی نے بعد ازاں ’اقبال‘ کے نام سے انگریزی زبان میں ایک کتاب بھی تحریر کی۔ علامہ اقبالؒ خود جرمنی کے شہر ہائیڈ ل برگ میں آمد کے موقعہ پر عطیہ فیضی کو لینے کیلئے آئے۔عطیہ فیضی نے اپنی کتاب ”اقبال“ میں اس جگہ کا نام ”باغ فردوس“ تحریر کیا ہے۔ کیوں کہ اقبال میونخ کو جزیرہ مسرت کے نام سے یاد کرتے تھے۔ میونخ کی سیر کے دوران علامہ اقبال عطیہ فیضی کے ساتھ تھے۔تقسیم ہندوستان کے بعد عطیہ فیضی اپنی بہن کے ساتھ لاہور آگئیں لیکن ان کی زندگی نہایت کسمپرسی میںگزری۔ عطیہ فیضی کا انتقال 1967 میں ہوا۔