حکومت نے دو بار پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں منجمد رکھنے کے بعد نومبر کے پہلے پندھڑ واڑے کے لئے پٹرولیم اور ہائی سپیڈ ڈیزل کے نرخوں میں معمولی کمی کی ہے، جبکہ ایل پی جی کے نرخوں میں 10روپے فی کلو اضافہ کر دیا گیا ہے، نرخوں میں یہ کمی عالمی مارکیٹ کے حوالے سے کی گئی ہے، بین الاقوامی سطح پر پٹرولیم مصنوعات سستی ہوئی ہیں، لیکن یہاں اس تناسب سے صارفین کو فائدہ نہیں پہنچایا گیا، حکومت کی طرف سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق پٹرول کے نرخوں میں 1.57روپے فی لیٹر کمی کی گئی ہے، جبکہ ایل پی جی کی قیمت120روپے کلو سے بڑھا کر130روپے کر دی گئی ہے۔ مٹی کے تیل اور لائٹ ڈیزل کی قیمت منجمد اور سابقہ شرح کے مطابق رہے گی، اعلان تو کمی کا کیا گیا،لیکن اس سے صارفین کو فرق نہیں پڑے گا،ہائی سپیڈ ڈیزل زیادہ تر صنعتوں اور زرعی شعبہ والے استعمال کرتے ہیں، اتنی معمولی کمی سے ان کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہو گا، تاہم ایل پی جی کے نرخوں میں 10روپے فی کلو کا اضافہ گھریلو اور کمرشل صارفین کے لئے بوجھ بنے گا، حکومتی اعلان کے مطابق قدرتی گیس کی قلت ہو گی، اس طرح ایل پی جی کا استعمال بڑھ جائے گا، حکومت کو پٹرولیم مصنوعات کے حوالے سے اِس امر کو پیش نظر رکھنا چاہئے کہ یہ مصنوعات براہِ راست مارکیٹ پر اثر انداز ہوتی ہیں،عالمی مارکیٹ کے نرخوں کا فائدہ صارفین تک منتقل ہونا چاہئے۔حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید کمی کا اعلان کر دیاجس کا اطلاق یکم نومبر سے ہو گیا ہے۔ دنیا میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے حوالے سے مختلف پالیسیاں نافذ ہیں۔ ملائشیا جیسے ممالک تیل درآمد کرتے ہیں۔ پھر تیل پر سبسڈی دے کر عوام کو کم نرخوں پر فراہم کرتے ہیں۔ اس کا اثر وہاں کی معیشت پر بہت اچھا رہا ہے۔ ملائشیا میں سیاحت کا شعبہ ہر سال کروڑوں مہمانوں کی خاطر داری کرتا ہے۔ یہ سیاح مقامی ٹرانسپورٹ استعمال کرتے ہیں۔ سبسڈائز تیل کی وجہ سے پبلک ٹرانسپورٹ جہازوں ریلوں اور کاروں کے کرائے خاصے کم ہیں۔ کرائے کم ہونے پر سیاح اور مقامی افراد کم خرچ پر ایک علاقے سے دوسرے علاقے کو جا سکتے ہیں۔ یہ کسی ملک کے معاشی ماڈل پر منحصرہے کہ وہاں تیل کی قیمتوں کا تعین کیسے کیا جا سکتا ہے۔ دوسری حکومت ہر سال بجٹ میں ٹیکس اہداف مقرر کرتی ہے لیکن کسی ایک برس بھی یہ اہداف حاصل نہیں ہو پائے۔ اس صورت حال میں ماضی کی حکومتوں نے بہتر جانا کہ پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس بڑھا کر قومی ٹیکس اہداف حاصل کئے جائیں۔ اس ماڈل نے ٹرانسپورٹ کرائے بڑھا دیے لوگوں کا روزگار یا سیاحت کےلئے ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں جانا مشکل ہو گیا۔ دنیا میں سب سے زیادہ تیل استعمال کرنے والے ممالک امریکہ بھارت روس اور یورپ بند پڑے ہیں۔ چین میں جزوی کام جاری ہے۔ پاکستان کی وزارت خزانہ کا خیال ہے کہ معاشی بحران کے باعث کاروباری سرگرمیاں کم ہونے سے حکومت کےلئے یہ ممکن نہیں ہو گا کہ وہ ٹیکس اہداف حاصل کر سکے۔ ان حالات میں تیل کی قیمتوں میں کمی کی گنجائش پوری طرح عوام کو منتقل نہیں کی جا رہی۔ یقینا ملکی معیشت پر قرضوں کا بوجھ اس قدر بھاری نہ ہوتا تو حکومت کےلئے پٹرولیم مصنوعات کے نرخ مزید کم کرنا ممکن ہو سکتا تھا۔ حکومت کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کرنے کے بعد ان سرکاری اداروں کو فوری طور پر متحرک ہونے کی ضرورت ہے جو پبلک اور گڈز ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں کمی اور اس کمی پر عملدرآمد کے ذمہ دار ہیں۔ برسہا برس سے یہ دیکھا جا رہا ہے کہ ٹرانسپورٹرز نے محکمہ ٹرانسپورٹ میں اپنے حامی افسروں کے ذریعے ایسا نیٹ ورک بنا رکھا ہے جو حکومت کے فیصلوں کا ثمر عوام تک پہنچنے سے روکتا ہے۔ اس سلسلے میں کسی طرح کی تاخیر یا حیلہ بازی کا محاسبہ کرنا ضروری ہے حکومت اگر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا براہ راست فائدہ عوام کو پہنچناچاہتی ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ ٹرانسپورٹرز سے کرائے کم کر وائے تاکہ عملی طور پر عام آدمی کے روزمرہ اخراجات میں کمی واقع ہو۔ بہت سے ملکوں میں تیل کی قیمتیں سالانہ میزانیے میں طے کی جاتی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک برس تک پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں یکساں رہتی ہیں۔ اس طریقے سے ٹرانسپورٹ کے کرایوں کو متعین کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ یوں ملکی معیشت یکساں رفتار سے آگے بڑھتی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کو عوام پر مزید بوجھ نہیں ڈالنا چاہئے بجلی اور تیل کے نرخوں میں بین الاقوامی مارکیٹ کے حساب سے کمی کرنی چاہئے کیونکہ پاکستانی عوام پہلے سے مہنگائی ،بے روزگاری اور دوسرے مسائل کی وجہ سے انتہائی پریشان ہیں اور ان کو مزید تنگ اور پریشان نہیں کرنا چاہئے۔