شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ 9نومبر 1877ءبمطابق 3ذوالقعدہ 1294ھ کو سیالکوٹ میں شیخ نور محمد کے گھر پیدا ہوئے ماں باپ نے نام محمد اقبال رکھا ۔اقبالؒ نے بر صغیر پاک وہند کے مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے میں جو کلیدی کردار ادا کیا ہے،اُسے کبھی بھلایا نہیں جا سکتا۔انہوں نے پاکستان کا خواب دیکھا تھا،جس کو شرمندئہ تعبیر قائد اعظم نے کیا۔ اقبالؒ کے فلسفے اور نظریات کا ہی ثمر تھا کہ ہمیں ایک آزاد وطن نصیب ہوا۔اُنہوں نے اُمت مسلمہ کے لئے بے تحاشا خدمات انجام دیں۔بلاشبہ اُن کی شاعری لازوال ہے۔وہ بہ حیثیت شاعر عالمی شہرت رکھتے ہیں،آج بھی دُنیا بھر میں اُن کے چاہنے والے بڑی تعداد میں موجود ہیں، جو عقیدتوں اور محبتوں کے پھول اُن پر نچھاور کرتے ہیں۔اقبالؒ دراصل ایسے فلسفے،فکر اور نظریات کا نام ہے۔ہمیں اس عظیم شاعر کے افکار کا پر چار محض برسی اور سالگرہ کے مواقع پر ہی نہیں کرنا چاہئے بلکہ ہر لمحہ اُنہیں اپنے پیش نظر رکھنا اور اُن کو پروان چڑھانا چاہئے۔بلاشبہ ملک وقوم اقبال کے نظریات اور افکار پر عمل پیرا ہو کر ہی ترقی کی بلندی کو پہنچ سکتے ہیں۔غرض اُن کی آفاقی فکر کی پیروی میں ہی ہماری فلاح وبہبود پوشیدہ ہے۔بلا شک وشبہ علامہ اقبال پاک وہند کی ایک ایسی تاریخ ساز اور عہد ساز شخصیت ہیں جنہوں نے نہ صرف ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے ایک الگ ریاست کا ”نظریہ “متعارف کیا بلکہ اپنی شاعری میں جدید نظریات ،سائنس اور عالمی فکر کی اس امکانی قوت کو بیان کیا ‘اقبالؒ نئی دنیا کی تعمیر کی دعوت دو وجوہات سے دیتے ہیں۔کلام اقبال کا بیشتر حصہ ایسا ہے جس میں براہ راست انسانوں سے خطاب ہے یا انسانوں کی ترجمانی ہے۔انسان دوستی،احترام آدمیت اور عظمت انسانی کی تائیدوتفسیر کلام اقبالؒ کی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔حقیقت بھی یہی ہے کہ کلام اقبال میں خاصی مقدار میں ایسے اشعار ہیں جن کا موضوع انسان اور عالم انسانیت ہے۔وہ ایک بین الاقوامی دور کے دانشور اور مفکر تھے لہٰذاوہ ہماری تاریخ کے سب سے پہلے اور بڑے شاعر تھے جنہوں نے شعوری طور پر آفاقیت کو اپنا مطمح نظر بنایا ۔علامہ اقبال اسلامی قومیت کے علمبردار تھے ان کی اسلامی اور ملی شاعری آفاقیت کے منافی نہیں۔درحقیقت اقبال کی انسان دوستی کو قرآنی تصور توحید سے الگ کرنا ممکن نہیں ہے۔نظریہ توحید ہی مستقل طور پر انسان کو خوف سے نجات دلاتا ہے اور مظلوم کوظالم سے آنکھیں چار کرنے کا حوصلہ بھی دیتا ہے ۔علامہ اقبال کے افکار کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے کہ جنہیں پھیلا کر امن وآشتی کی فضا ءقائم کی جاسکتی ہے۔اقبال نے مسلمانوں کو الگ پہچان کے ساتھ سر اٹھانے کی تحریک دی۔انہوں نے یہ بھی باور کروایاکہ یہ قوم غلام ہو ہی نہیں سکتی۔اس لئے تمام مسلمان یکجا ہو کر اپنی پہچان کے لئے ظالم کے سامنے سینہ سپر ہو جائیں تو آدھے سے زیادہ مسائل تو ایسے ہی حل ہو جائیں گے۔ڈاکٹر علامہ محمد اقبال بیسوی صدی کے ایک معروف شاعر ‘ مصنف‘ قانون دان‘ سیاستدان‘مسلم صوفی اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجہ شہرت ہے شاعری میں بنیادی رجحان اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا ۔اقبال کسی ایک دور کا شاعر نہیں ہے اس نے تمام زمانوں کو اپنے افکار کے ذریعے محیط کیا ہے۔اقبال کی تمام خصوصیات اور فکر اقبال کی تمام جہتیں دراصل قرآن عظیم کی رہنمائی میں تشکیل پاتی ہیں۔اقبال کے نزدیک قوم کی عظمت رفتہ کی بحالی قرآن اور حامل قرآن حضرت محمد مصطفی کی طرف رجوع کرنے سے ممکن ہے۔انسان کے لئے رشد وہدایت کے یہی دومنبع ہیں،ان سے گریز کرکے دین ملتا ہے نہ دنیا اور نہ زندگی کو زندگی بنایا جا سکتا ہے اور نہ آخرت کو بقا کا مقام دیا جا سکتا ہے۔علامہ اقبالؒ مسلمان سے جدت کردار کا طالب ہے اور اس لئے واضح طور پر اعلان کرتا ہے کہ قرآنی تعلیمات پر عمل پیرا ہوئے بغیر یہ مقصد حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ علامہ اقبال کو دور جدید کا مصلح سمجھا جاتا ہے۔بحیثیت سیاستدان ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریہ پاکستان کی تشکیل ہے،جو انہوں نے 1930ءمیں الہٰ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا اسی وجہ سے علامہ اقبال کو پاکستان کا نظریاتی باپ سمجھا جاتا ہے گوکہ انہوں نے اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انہیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔