کئی سال پہلے اپنے سکول کا زمانہ یاد کریں جس کے اردو کے قاعدے میں جملے کچھ اس طرح لکھے ہوتے تھے ابا اخبار پڑھ رہے ہیں‘ امی چولہا جلا رہی ہے‘ اور آج بھی ترقی یافتہ دور میں مجھے یقین ہے کہ کئی سکولوں کے نصاب میں یہی کتب پڑھائی جارہی ہوں گی ‘ گھر داری عورت کی زینت ہے لیکن یہ وہ وقت تھا جب ذہین اور فطین لڑکیوں کو تعلیم سے دور رکھا جاتا تھا یہ نہ صرف پاکستان میں تھا بلکہ ہندوستان اور میں آج کی ترقی یافتہ اقوام میں بھی یہ رواج تھا آپ سن کر یقینا حیران ہونگے کہ ملکہ الزبتھ جو موجودہ دور میں عمر کے آخری حصے میں بھی دنیا کے کئی ممالک پر راج کر رہی ہے وہ کبھی بھی سکول نہیں گئی اسکے پاس سکول کالج کی کوئی ڈگری یا سرٹیفکیٹ نہیں ہے برصغیر کی وہ تمام خواتین لائق صد تحسین ہیں اور ان کے والدین اس سے بھی زیادہ آفرین کے قابل ہیں جنہوں نے اپنی بچیوں کو زیور علم سے نوازنے کیلئے سکولوں اور یونیورسٹیوں میں بھجوایا فاطمہ جناح ڈاکٹر تھیں ‘سروجنی نائیڈو اعلیٰ تعلیم کیلئے لندن گئی تھی اقبال ان کو اپنی شاعری بھیجوایا کرتے تھے قائداعظم محمد علی جناح کے ساتھ تحریک پاکستان میں ایسی کئی مثال خواتین شامل تھیں جو تعلیم یافتہ تھیں باپردہ جدوجہد میں شریک رہتی تھیں گر گنوانے کیلئے نام شروع کروں تو ان گنت ہونگے اور وہ عورتیں جو کبھی سکول نہیں گئی انہوں نے اپنی گود میں ایسی ایسی ہستیوں کی پرورش کی کہ ان ماﺅں کیلئے خراج تحسین ہے جب ذرا زمانہ ہوشیار ہوا تو خواتین کیلئے بھی سکولوں کے دروازے کھل گئے لیکن پھر بھی سکول جانے والی لڑکیاں چند گھرانوں سے تھیں اور زیادہ تعداد جو لاکھوں ہزاروں میں تھی گھر داری‘ سلائی کڑھائی‘ ہانڈی روٹی کیلئے موزوں سمجھی جاتی تھی لڑکے تمام یا بہت بڑی تعداد میں سکول جاتے تھے اور ان میں سے بھی میٹرک یا ایف اے کے بعد نوکری شروع کرکے اپنی تعلیم کو خیرباد کہہ دیتے تھے لڑکیاں صرف پرائمری پاس ہوتی تھیں جو میٹرک جان جوکھوں سے کرلیتی تھیں ان کیلئے سب سے بہترین پیشہ استانی بننا تھا وہ جے وی ایس وی اور سی ٹی کر لیتی تھی اور نزدیک ترین سکول میں خدمات پیش کردیتی تھی معاشرہ ذرا زیادہ باشعور ہوا تو لیڈی ڈاکٹر اور لیکچرر کا شعبہ خواتین کیلئے وقف کردیاگیا یہ بات حیرت سے سنی جاتی تھی کہ فلاں کی بیٹی ڈاکٹر ہے یا کالج میں لیکچررہے ایسے ہی زمانے میں بے شمار لکھاری خواتین نے بھی اپنا نام روشن کیا جن کا شمار اولین ادیبوں‘ افسانہ نگاروں اور شاعرات میں ہوتا ہے انہوں نے واقعی ایسا ایسا ادب تخلیق کیا کہ آج بھی ان کی تحریریں ادب کے شہ کارہیں انہوں نے بے شمار مشکلات کا سامنا کیا ان کو آزاد‘ بے باک‘ بے پردہ اور فرسودہ القابات سے نوازا گیا لیکن ان کے اندر کا لکھاری کبھی نہیں مرسکا بعض نے تو کئی نامور لکھاریوں سے شادیاں بھی کیں اور شہرت دوام پائی میوزک اور فلم‘ عورتوں کیلئے شجرممنوعہ تھے اسی طرح دفاتر میں کام کرنا یعنی مردوں کے ساتھ بیٹھ کر کام کرنا بھی معاشرتی طورپر معیوب سمجھا گیا اور ان عورتوں کو حیرت اور استعجاب سے دیکھا گیا جو کسی دفتر میں کام کرتی نظر آئیں۔وقت نے اپنا ورق پلٹا اور حیرت انگیز طورپر لڑکیوں کو تعلیم یافتہ کروانا والدین کو سمجھ آگیا سکولوں کالجوں میں لڑکیوں کی تعداد بڑھ گئی اور خواتین تعلیم یافتہ ہوکر اپنے لئے ٹیچر‘ لیکچرر اور ڈاکٹر سے بھی آگے کے پیشے منتخب کرنے کیلئے خود مختار ہوگئی آج عورت دفتر میں بیٹھی ہے ٹائپسٹ ہے آفیسر ہے ملٹی نیشنل کمپنیوں میں پروفیشنل کی حیثیت سے بیٹھی ہے سی اس پی آفیسر ہے میڈیکل اسپیشلسٹ ہے سائیکاٹرسٹ ہے براد کاسٹر ہے نیوز ایڈیٹر ہے نیوز ریڈر ہے کمپیئر اور اناﺅنسرہے حتی کہ وقت کی انگڑائی نے اس کیلئے فلم ڈرامہ‘ میوزک اور ڈانس کے دروزے بھی کھول دیتے ہیں اور ان برے القابات والے پیشوں کو فن کا نام دے دیا گیا وہ گانا سننا اور گانا بجانا جو فحاشی کے زمرے میں آتا تھا اب ان میں کام کرنے والوں کو یونیک لوگوں میں شمار کئے جانے لگا ‘کہاں تو وہ برقعہ پہن کر گھر سے ایسے نکلتی تھی کہ اسکی موجودگی سے ہوا بھی خبر نہ پا سکے پھر وقت نے دیکھا برقعہ ختم ہوگیا چادر سے پرد ے کا مقصد پورا ہونے لگا پھر ایک بڑے سے دوپٹے سے اسکی کمی کو پورا کرنے کی کوشش کی گئی اور بڑا دوپٹہ چھوٹی سی لیر میں بدل گیا اور پھر اس بات کا کسی کو ہوش ہی نہ رہا ‘ وقت بدل گیا اب اسکی مرضی چلنے لگی ہے وہ کس کو اپنے لئے بہتر جانے یہ وہ خود جانتی ہے والدین کی دخل اندازی بے معنی ہے جس گھر میں جائے وہاں کیا حالات پیدا کردے یہ وہ خود جانتی اور سمجھتی ہے وہ چاہے تو کسی بھی وقت شوہر سے جان چھڑا لے جنازہ وغیرہ سسرال سے نکلنے کی باتیں اب فرسودہ زمانے کی روایات بن گئی ہیں آپ صرف زمانے کی رفتار دیکھیں اور وقت کی گردبار دیکھیں لیکن بہن ابھی بھی ہمیں اس تیز رفتار زمانے میں ایسی تعلیم یافتہ عورت نظرآتی ہے جو ڈاکٹر ہے انجینئر ہے پائلٹ ہے لیکچرر اور پروفیسر ہے سادگی کا مرقع ہے شوہر کی تابعدار ہے سسرال کی فرماں بردار ہے گھرداری اسکاشعار ہے بچوں کی تربیت عاجزی سے کرتی ہے تعلیم یافتہ ہونے کا طعنہ بھی سنتی ہے ذہنی تشدد کا شکار بھی ہوتی ہے خدمت کرتے کرتے اسکا اپنا آپ کہیں کھو جاتا ہے اشاروں کی منتظر رہتی ہے حکم بجالاتی ہے باپردہ رہتی ہے اپنے ماں باپ اور شوہر کا نام اپنے کردار و اخلاق سے روشن کرتی ہے لیکن اب اس کیلئے وقت بدل گیا ہے اب اس عورت کو زمانہ جاہل سمجھتا ہے کیوں کہ وہ وقت کی رفتار کے ساتھ اپنے لباس اور اپنے خیالات کو بدل نہیں پارہی ‘ زمانہ بھی ایسی عورت کو جاہل بے وقوف سمجھ کر روند کر آگے بڑھنا پسند کرتا ہے وہ اپنے آپ میں تنہا ہو جاتی ہے وہ سوال کرتی ہے کہ کیا وہ عورت کا وہ روپ اپنالے جوزمانہ چاہتا ہے یا وہ روپ جو ایک عورت کیلئے اس کے مذہب نے انتخاب کیا ہے ۔