امریکی سیاست میں تبدیلی

کتابوں میں لکھا ہے کہ حکمرانوں کو جوانوں کے جذبے سے زیادہ بزرگوں کی رائے کا احترام کرنا چاہئے کیونکہ تجربہ حاصل کرنے کیلے کوئی شارٹ کٹ نہیںہوتا وطن عزیز کی ہر سیاسی پارٹی میں کئی پرانے سفید ریش موجودہیں کہ جو ایک عرصہ دراز سے پارٹی کے اندر مختلف انتظامی عہدوں پر فائز ہیں اور نہایت وفاداری اور انہماک سے اپنی وفاداریاں نبھا رہے ہیں‘ ان کو پارٹیوں کی قیادت آ گے آنے اس لئے نہیں دیتی کہ وہ نہیں چاہتی کہ ان کی موروثی سیاست میں رتی بھر بھی فرق پڑے ان سفید ریشوں کی حالت زار پر افسوس ہوتا ہے وہ ضرور یہ سوچتے تو ہوں گے کہ کیا انہوں نے اپنی سالم زندگی اپنی سیاسی پارٹی کیلئے اس لئے وقف کی تھی ‘اب بات ہوجائے امریکی انتخابات کی۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے جوبائڈن کی امریکی صدارتی الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے پر ہمیں یاد آیا کہ انہوں نے اپنی 77 سالہ زندگی میں اب تک کئی نشیب و فراز دیکھے ہیں انہیں کئی مرتبہ اونچ نیچ کا سامنا کرنا پڑا ہے مالی مشکلات میں پھنسے اپنے والد کا ہاتھ بٹانے اور اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کےلئے لوگوں کے گھروں کی چمنیاں بھی صاف کرنا پڑی ہیں اور سخت محنت شاقہ کے بعد ان کے دن کہیں جا کر پھرے ہیں انہیں بخوبی علم ہے کہ کسی غریب کے دن کیسے گزرتے ہیں نکسن اور بائڈن جیسا مالی طور پر متوسط گھرانے کا شخص امریکہ جیسے ملک میں تو صدر بن سکتا ہے پرہمارے جیسے ملک میں وہ ایسا سوچ بھی نہیں سکتا ‘ جس طرح ہٹلر جرمن قوم کو ہی مارشل نسل سمجھ کر دنیا پر حکومت کرنے کے قابل تصور کرتا تھا ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی امریکہ میں سفید فام لوگوں کے دلوں میں سیاہ فام لوگوں کے خلاف نفرت کے بیج بوئے ہیں جس کی وجہ سے امریکہ کے معاشرے میں پولرآئزیشن polarization ہوئی ہے ٹرمپ گو یہ الیکشن تو ہار چکا پر آ ج بھی 71 ملین امریکی ٹرمپ کے خیالات سے اتفاق کرتے ہیں اور عین ممکن ہے کہ اس کی سیاسی پارٹی یعنی ریپبلکن پارٹی 2024 کے صدارتی الیکشن میں دوبارہ برسراقتدار آ جائے تاریخ گواہ ہے کہ اچھا لیڈر اسے کہا جاتا ہے کہ جو اپنے معاشرے کو جوڑے نہ کہ تقسیم کرے اس لحاظ سے ٹرمپ کا ٹریک ریکارڈ بڑا برا رہا ہے اسکا اندازہ آپ صرف اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ایک طرف تو اپنے دل میں ان لوگوں کیلئے نفرت کا جذبہ رکھتے ہیں کہ جو سفید فام نہیں اور دوسری طرف الیکشن مہم کے دوران انہی بھارتیوں کے جلسہ عام میں کہ جو سفید فام نہیں ہیں شرکت بھی کرتے ہیں کہ جو امریکہ میں مقیم ہیں تا کہ ان کے ووٹ بھی وہ جیت سکیں۔ اگر آپ باریک بینی سے امریکہ کے حالیہ صدارتی الیکشن کے نتائج کا مطالعہ کریں تو آ پ کو پتہ چلے گا کہ ٹرمپ کی سیاسی جماعت نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے بھلے وہ امریکہ کی قومی اسمبلی یعنی ہاو¿س آ ف ریپریزنٹیٹوز میں اقلیت میں رہی ہو لیکن اس نے اپنی سیٹیں بڑھائی ہیں سینٹ کا کنٹرول بھی لگ رہا ہے کہ برقرار رکھا ہے اور امریکہ کی 50 ریاستوں کی مقامی قانون ساز اسمبلیوں میں اکثریت حاصل کی ہے یہ بڑی دلچسپ حقیقت ہے کہ گو کئی امریکیوں نے ٹرمپ کو مسترد کیاہے پر اس کی سوچ اور پارٹی کو رد نہیں کیا۔یہ بھی بڑی عجیب بات ہے کہ ری پبلکن پارٹی کی کارکردگی بہتر ہوئی ہے تو وہ بھی ٹرمپ کی ہی وجہ سے ہوئی ہے ٹرمپ اگر ہارا تو اپنے لا ابالی مزاج کی وجہ سے ہارا ہے۔ٹرمپ اگر چاہے تو 2024 کا صدارتی الیکشن لڑ سکتا ہے گو اس کے امکانات کافی کم ہیں اس نے امریکی معاشرے کو تفریق کا بری طرح شکار کر دیاہے امریکہ کے نو منتخب صدر جو بائڈن کے کاندھوں پر بہت بڑی ذمہ داری آ ن پڑی ہے کہ وہ اس تفریق کو کم کریں۔