پتوں کے زرد اور سرخ رنگ

یہ اگرچہ ایک منظم سیروتفریح کا پروگرام تھا لیکن میں ایسی بس میں سفر کررہی تھی جس کے تمام مسافروں سے ناآشنا تھی۔ کینیڈامیں ایسی کئی ٹورز کمپنیاں ہیں جو آن لائن رجسٹریشن کے ذریعے لوگوںکی تفریح کا سامان مہیا کرتی ہےں وہ مختلف تاریخی ثقافتی اور دور دراز شہروں پر مشتمل تفریح کے پروگرام بناتی ہیں جو لوگوں کو زیادہ سے زیادہ معلومات اور لطف دے سکیں۔ کینیڈا کی زندگی تنہا ہے۔ لوگوں کی عادات میں بھی تنہائی پسندی ہے وہ زیادہ گھلنا ملنا پسند نہیں کرتے اور نہ ہی ہم ایشیا کے لوگوں کی طرح مل جل کر تفریحات کا انتخاب کرتے ہیں۔ دوست ان سب کے ہوتے ہیں لیکن تیز رفتار ترقی اور مسلسل کام نے ان لوگوں کو یکجائی کے مواقع کم ہی میسر کئے ہیں۔ اس کے برعکس ہم پاکستان کے لوگ فارغ ہیں۔ کام کی جگہ پر بھی گپ شپ کرکے آجاتے ہیں اور کہیں بھی کسی کے پاس بھی جانا ہو بغیر بتائے اور وقت لئے پہنچ جاتے ہیں اور بھلا ہو ان کا بھی جو کبھی نہیں پوچھتے کہ آپ بن بلائے ہمارے سر پر کیوں آگئے ہیں کھلے ماتھے کے ساتھ ہمارا استقبال کرتے ہیں لیکن ہم میزبان کا ڈھیروں وقت ضائع کرکے اس کی خاطر تواضع میں ستر / اسی کیڑے نکال کر واپس آجاتے ہیں۔ کینیڈا کے لوگوں کیلئے مختلف ٹورز کمپنیاں گرمی میں خاص طور پر ٹورز مرتب کرتی ہیں اور لوگ مختلف شہروں اور علاقوں میں بیٹھے ہوئے ان ٹورز کیلئے آن لائن رجسٹریشن کرواتے ہیں۔ ۔ علی الصبح میں بس کے اڈے پر پہنچ چکی تھی۔ تین بسیں مجھ سے بھی پہلے صبح5 بجے سڑک کی زرد روشنیوں کے ساتھ تیار کھڑی تھیں۔ ڈرائیور چاک و چوبند، گائیڈ اپنی ڈیوٹی سرانجام دینے کیلئے تیار۔ گائیڈ نے بس کے دروازے پر مجھے خوش آمدید کہا۔ میں بس کا کرایہ اور ہوٹل کا دو راتوں کا کرایہ ایڈوانس میں اپنے کریڈٹ کارڈ سے ادا کرچکی تھی۔ اپنی دوست کی موجودگی میں خوداعتمادی بھی موجود تھی۔ پھر بھی یہ زندگی کا ایک نیا تجربہ تھا۔ جہاں میں کسی مسافر کو بھی نہیں جانتی تھی جن کے ساتھ میں اگلے تین دن اکٹھے گزارنے چلی تھی۔ گائیڈ نے مجھے میری سیٹ نمبر کا کاغذ پکڑایا اور میں نے اپنے بیٹے کوخدا حافظ کہا جو مجھے چھوڑنے کےلئے صبح کے اندھیرے میں میرے ساتھ آیا تھا۔ میں نے گھڑی دیکھی پورے چھ بجے تھے اور بس اپنے شیڈول کے مطابق ایک سکینڈ کا وقت بھی ضائع کئے ہوئے روانہ ہوچکی تھی۔ گائیڈ نے پہلے چینی زبان میں اور پھر انگریزی زبان میں سب کو خوش آمدید کہا اور بتایا کہ اگلے تین بس سٹاپس سے مسافروں کو بٹھایا جائے گا اور پھر بس شیڈول کے مطابق کینیڈ اکے سب سے پہلے دارالخلافہ کنگسٹن روانہ ہوجائے گی اور ایسا ہی ہوا۔ ہر مسافرمقرر جگہ پر ہی موجود تھا اور بس وقت مقررہ پر ہی چل رہی تھی۔ ہم کنگسٹن (Kingston) شہر کی طرف چل پڑے تھے۔ کینیڈا بھی پاکستان کی طرح چار موسموں کا حامل ہے۔ گرمی، بہار©، خزاں اور سردی۔ اگرچہ یہاں کی سردی بہت انتہائی ہوتی ہے۔ زمین آسمان مہینوں برف ہی برساتے ہیں لیکن حکومت کا کام جیسے اپنے عوام کو سہولیات پہنچانا ہی ہوتا ہے۔ عوام بھی ٹیکس ادا کرنے اور قانون کی تابعداری کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ برف آسمان سے تو برستی ہے لیکن سڑکیں صاف کی جاتی ہیں۔ ملکوں سے گرم ٹھنڈا پانی آرہا ہوتا ہے۔ سکول، دفاتر، مارکیٹیں کھلی ہوئی ہوتی رہیں۔ مناسب برف کے لباس کے ساتھ اس سردترین موسم کا سامنا کیا جاتا ہے۔ نہ کوئی احتجاج، نہ کوئی جلسہ نہ جلوس، نہ انتقام، نہ جذباتیت صرف کام، قانون، سہولیات، تعلیم ، صحت اور سیکورٹی ہوتی ہے۔ عوام کی جان ومال ہر طرح سے محفوظ ہوتی ہے۔ ترقی یافتہ اقوام کی باتیں ہمارے ممالک کی باتوں سے بالکل جدا ہیں۔ ان کے قائدین آتے جاتے رہتے ہیں۔ ادارے اتنے زیادہ مضبوط ہیں کہ پاکستان کے لوگ شاید ان باتوں کو مذاق سمجھیں۔ قانون اتنا سخت ہے کہ اندرون گلیوں تک میں گاڑیوں کی رفتار کا کنٹرول ہے۔ تعلیم نے ان کے عوام کو ذہنی طورپر توانا بنایا ہوا ہے لوگ اپنے حق اور فرض کو جانتے ہیں۔بس ایک نئے شہر کی طرف روانہ تھی اور میں خزاں کے اس خوبصورت بدلتے موسم میں اپنے ملک اور ترقی یافتہ ممالک کا موازنہ کرتی پھر رہی ہوں۔کنگسٹن ہم صرف ڈیڑھ گھنٹے میں ہی پہنچ چکے تھے۔ یہ کینیڈا کا اولین دارالخلافہ تھا۔ گائیڈ نے یہاں 45 منٹ رکنے کا اعلان کیا تاکہ ہم یہاں کی مشہور کوئین یونیورسٹی دیکھ سکیں۔ کینیڈ اکا سب سے پہلا انجینئر اور سب سے پہلی ڈاکٹر اسی کوئین یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ تھے۔ 1841ءمیںیہ شہر کینیڈا کا دارالخلافہ بنا۔ انتاریو جھیل کے آخری سرے پر واقع یہ شہر1844 تک دارالخلافہ تھا۔ یہاں کینیڈا کا مشہور زمانہ سینٹ لارنس کالج، رائل ملٹری کالج بھی موجود ہیں۔ سینٹ لارنس دریا کا نام بھی ہے جو یہی یعنی اسی شہر سے شروع ہوکر کیوبک کے صوبے تک چلا جاتا ہے۔ یہ ایک خاموش پرسکون سا چھوٹا سا شہر ہے جس کی آبادی ایک ڈیڑھ لاکھ کے قریب ہے۔ میں نے دیکھا سامنے میدان میںایسی سبزیاں اور فروٹ کی مارکیٹ لگی ہوئی ہے جو گھروں میں اُگائی گئی ہیں جو Organic یا اصلی کھاد سے تیار کی گئی ہیں۔ کینیڈا میں اب ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کیلئے س طرح کی مارکیٹیں کثرت سے لگائی جاتی ہیں جو ہفتے میں ایک بار گردونواح میں رہنے والے دیہات کے لوگ شہروں میں آکرلگاتے ہیں۔پھل اور سبزیاں جو اپنے ذائقے میں مزیدار ہوتی ہیں شہر کے لوگوں پر سستے داموں فروخت کرتے ہیں۔ برف کے اس ملک میں یہ خرید و فروخت صرف گرمی کے موسم تک محدود ہوتی ہے۔ میں نے بھی اس مارکیٹ سے میٹھے مالٹے خریدے اور اس شہر کی خوبصورت سڑکوں کودیکھا، ایک قہوہ خانے میں بیٹھ کر قہوہ پیا۔ یہاں زیادہ تر یونیورسٹی کے طلباءو طالبات اپنے اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر گپ شپ کر رہے تھے چونکہ وقت تھوڑا تھا اس لئے دور تک جایا نہیںجاسکتا تھا۔ صفائی ستھرائی دیکھ کر ان لوگوں پر رشک آتا ہے کہ نہ صرف وہ خود صاف لباس پہنے ہوتے ہیںبلکہ سڑک ، واش روم، دوکان، تمام صفائی کا نقشہ پیش کررہے ہیں۔ سڑکوں پر رکھے ہوئے جابجا کوڑے دان کو ہی گند کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ بس میںتمام لوگ مقررہ وقت پر آچکے تھے۔ ہماری اگلی منزل اوٹاوہ تھی۔ جو کنگسٹن سے دو گھنٹے کی مسافت پر ہے۔