دنیا کا ایسا قصبہ جہاں ایک رات دو ماہ سے زیادہ عرصے پر مبنی ہوتی ہے

 امریکا کے شمال میں واقع ایک قصبہ ایسا بھی ہےجہاں ایک رات دو ماہ سے زیادہ عرصے پر مبنی ہوتی ہے ۔

جی ہاں امریکی ریاست الاسکا کا قصبہ یٹکیاجیوک، جس کو پہلے بیرو کے نام سے جانا جاتا تھا، وہاں 18 نومبر کو جب سورج غروب ہوا تو طویل ترین رات کا آغاز ہوا۔

درحقیقت یہ اس قصبے میں 2020 میں آخری بار سورج غروب ہوا تھا اور اب وہاں کے رہائشی سورج کی روشنی کو دوبارہ 2 ماہ سے زیادہ عرصے بعد دیکھ سکیں گے۔

اس کی وجہ پولر نائٹ یا قطبی رات ہے جو آرکٹک اور انٹارکٹیکا میں ہر سال موسم سرما میں نظر آتا ہے کیونکہ زمین اپنے محور پر کچچھ جھک جاتی ہے۔

ایسا ہونے سے آرکٹک سرکل سرما اور بہار کے دوران سورج سے کئی دنوں، ہفتوں بلکہ مہینوں تک دور رہ سکتا ہے۔

اس کے مقابلے میں گرمیوں میں اس خطے میں سورج کی روشنی 24 گھنٹے تک برقرار رہتی ہے اور اس کو مڈنائٹ سن کہا جاتا ہے۔

زمین کے شمالی نصف کرے میں جون کے آخر سے دن کا دورانیہ گھٹنے لگتا ہے اور ہر ملک میں سورج کے غروب ہونے کا دورانیہ کم ہونے لگتا ہے، مگر اس کا اثر شمالی خطوں پر سب سے زیادہ ہوتا ہے۔

وہاں دن کا دورانیہ ستمبر کے آخر میں بہت تیزی سے کم ہونے لگتا ہے، ایسا ہی الاسکا کے اس قصبے میں بھی ہوا۔

یکم نومبر کو یٹکیاجیوک میں 5 گھنٹے 42 منٹ تک سورج کی روشنی دیکھی گئی تھی، یعنی صبح 10 بج کر 18 منٹ پر سورج طلوع ہوا اور 4 بجے غروب ہوا۔
18

نومبر کو سورج صرف 34 منٹ کے لیے طلوع ہوا اور دوپہر ایک بج کر 29 منٹ پر غروب ہوگیا اور اب 66 دن بعد دوبارہ طلوع ہوگا۔

ویسے اس دوران سورج کی روشنی کسی حد تک تو نظر آئے گی مگر یہ معمول کے سورج غروب یا طلوع ہونا جیسا نہیں ہوگا۔

اب وہاں سورج 23 جنوری کو دوبارہ طلوع ہوگا۔

ویسے 2 ماہ سے زیادہ عرصے تک تاریکی کے بارے میں سننا عیب تو لگتا ہے مگر اس قصبے کو 11 مئی سے 18 اگست تک کبھی ختم نہ ہونے والی دن کی روشنی کا بھی سامنا ہوتا ہے۔

شمالی اور جنوبی قطب میں سال میں ایک بار سورج غروب اور طلوع ہوتا ہے، یعنی بہار میں سورج طلوع ہوتا ہے اور سرما میں غروب ہوتا ہے۔

شمالی قطب میں اس کے نتیجے میں مارچ سے ستمبر تک سورج کی روشنی رہتی ہے جبکہ باقی 6 ماہ تاریکی کا راج ہوتا ہے اور صرف ستاروں، چاند کی روشنی ہی نظر آتی ہے۔

اس سے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ الاسکا کے اس قصبے میں سورج کی روشنی کے گھنٹے اتنے ہی ہوتے ہیں جتنے دیگر ممالک کے شہروں میں، اس کی وجہ گرمیوں میں طویل دن ہوتے ہیں۔