پروفیشنل لوگ کنارہ کرچکے ہیں

مغرب میں فلم دیکھنے کا کلچر بڑا عام اور لوگوں کا پسندیدہ ہے اور یہاں سنیما ہاﺅس میں فلمیں دیکھنا تفریح کا بہت بڑا ذریعہ ہوتا ہے۔ کینیڈا میں بھی ایسے سنیماﺅں کی کثرت ہے جہاں ایک ہی بلڈنگ کے اندر کئی ہال ہیں اور ہر ہال میں اک نئی فلم دکھائی جارہی ہوتی ہے۔ آپ یوں سمجھ سکتے ہیں کہ اگر ایک خاندان فلم دیکھنے جاتا ہے تو بچوں کو ان کی پسندیدہ بچوں کی فلم اور بڑوں کو یا بوڑھوں کو اپنے شوق کے مطابق فلم دیکھنے کا موقع مل جاتا ہے۔ ٹکٹ لے کر وہ اپنے اپنے ہال کی طرف بڑھ جاتے ہیں۔ میں نے اپنے بچپن میں پشاور کے کئی سنیما گھروں میں کتنی ہی اچھی اور معیاری فلمیں دیکھی ہوئی ہیں۔ ان دنوں یعنی جب 1970-1980 کی دہائی تھی تو پشاور میں فلم دیکھنا برا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ خاص طورپر خواتین اپنی ساتھی خواتین کے ساتھ سنیما گھروں میں جائی تھیں جہاں ہال کے علاوہ گیلری میں بیٹھ کر بھی فلم دیکھنے کے الگ الگ ٹکٹ اور راستے ہوتے تھے۔ ہال میں عموماً مرد حضرات یا وہ عورتیں جن کے ساتھ ان کے شوہر ہوتے وہ بیٹھنا پسند کرتیں۔ میری بڑی بہن جب بھی اپنی سہیلیوں کے ساتھ فلم دیکھنے کا پروگرام بناتی صرف اس شرط پر اسے اجازت ملتی کہ وہ چھوٹی بہن بھی ساتھ لے جائیگی۔ عجیب سادہ زمانہ تھا۔ چھوٹی بہن یا چھوٹے بھائی ان دنوں بڑی بہن کی حفاظت کےلئے ساتھ رکھا جاتا تھا تاکہ معاشرے کی نگاہیں یہ نہ سمجھ لیں کہ جوان لڑکی بازاروں میں اکیلی گھوم رہی ہے۔ چھوٹا بہن بھائی اس بات کی گواہی ہوتا تھا کہ وہ حفاظت میں ہے یا پردہ ہے اور ماں باپ کی اجازت سے باہر نکلی ہے۔ اس حفاظت کے چکر میں میرا بچپن بے تحاشا فلمیں دیکھتے ہوئے گزرا۔ تب پشاور کے سنیما گھروں میں زنانہ شوز بھی ہوا کرتے تھے اکثر میں ہم پشاور صدر میں پی اے ایف سنیما میں یہ شو دیکھنے جایا کرتے تھے۔ گرمی کی دو پہریں اس کےلئے خاص طورپر مناسب ترین سمجھی جاتی تھیں کیوں کہ روشنی میں ہی آسانی سے گھر واپس آیا جاسکتا تھا۔ دروازے کے باہر تانگہ تیار ملتا تھا جس میں کرائے کے پیسے تقسیم کرکے بیٹھا جاتا تھا اور سیدھا سنیما ہاﺅس کے سامنے اتر جاتے تھے۔ اسی طرح ناولٹی سنیما اور ناز سنیما میں تو گلیوں سے پیدل چل کر سنیما ہاﺅس پہنچ جاتے تھے۔ گیٹ کیپر بڑی عزت احترام سے گیلری کی سیٹوں تک رہنمائی کرتا تھا اور بڑی آسانی سے فلم دیکھ لی جاتی تھی۔ البتہ جب واپسی پر پیدل گھر کی طرف چل رہے ہوتے تھے تو کتنے ہی لوگ خواتین پر فلم کے ڈائیلاگ یا گانے کے بول سنا سنا کر یہ باور کرائے تھے کہ ان کو علم ہے کہ یہ خواتین ابھی ابھی سنیما ہاﺅس سے فلم دیکھ کر نکلی ہیں۔ خواتین اور بھی تیز تیز قدم بڑھاتی تھیں۔ لیکن چھوٹے بہن بھائی کی موجودگی میں وہ اپنے آپ کو انتہائی محفوظ ہاتھوں میں تصور کرتی تھیں۔ بڑی مضحکہ خیز باتیں ہیں لیکن پشاور کا کلچر اور ماحول ایسا ہی ہوا کرتا تھا۔اب تو پشاور بہت تبدیل ہوگیا ہے۔ خواتین برقعے کی بجائے چادر لیتی ہیں بڑی اور لمبی چادر کی بجائے چھوٹی سی چادر بھی اوڑھ کر باہر نکل جاتی ہیں۔ ہمارے وقتوں میں پورے جسم اور منہ کو چھپانا ہماری تہذیب کا اہم ترین جزہوتا تھا۔ کینیڈا کے سنیما ہاﺅسز سے بات ذرا ادور نکل گئی ہے۔ یہاں کے سنیما ہاﺅس بہت محفوظ ہیں۔ کسی کو کسی سے کوئی لینا دینا نہیں۔ قطار بنا کر ٹکٹ لیا جاتا ہے اور بڑے بڑے کون میں کارن یعنی پشاوری میں بولیں تو پھلے بھربھر کر ساتھ کوک یا سیون اپ خرید کر ہال کے اندر لوگ جا رہے ہوتے ہیں اور بڑے ہی اطمینان سے اپنے دوستوں خاندانوں یا گرل بوائے فرینڈز کے ساتھ فلم دیکھتے ہیں‘ہاف ٹائم نہیں ہوتا۔ کوئی آوازیں لگاتا ہوا چیزیں بیچنے نہیں آتا۔ ہر ایک اپنے کھانے کی چیز اندر پہلے سے ہی لے کر آتا ہے۔ ساﺅنڈ سسٹم اتنا اچھا ہے کہ آوازصاف اور مکمل سنائی دیتی ہے۔ کانوں کو بری بھی نہیںلگتی۔ نہ تصویر جھٹکے کھاتی ہے۔ٹیکنیکل کوالٹیز یعنی مشینی خوبیاں تو مغرب کے لوگوں کا خاصا ہیں۔ اسی سنیما ہال میں۔ دو فلمیں پہلے بھی میں نے دیکھی تھیں۔ ”علاﺅ الدین“ یعنی علاﺅ الدین خلجی کے بارے میں (Lela) لیلا بھنسالی نے فلم بنائی تھی۔ ہندوستان پر حکومت کرنے والا خلجی خاندان کا ایک فرد جس کا تعلق افغانستان سے تھا۔ اس وقت بھی سنیما ہال میں ہندوﺅں اور سکھوں کی نوجوان نسل سے بھراہوا تھا اور لیلال بھنسالی نے اس مسلمان بادشاہ کی کردار کشی میں کوئی بھی کسر نہیں رہنے دی تھی اور ہندوﺅں سکھوں کی نئی نسل کو یہ بتانے کی پوری کوشش کی گئی تھی کہ مسلمان بادشاہ کس قدرظالم‘ سفاک اور بدکردار تھے۔ اگر میں نے تاریخ نہ پڑھی ہوتی تو شاید مجھے بھی یقین کرنے میںذرا تامل نہ ہوتا کہ علاﺅ الدین خلجی اس فلم کے مطابق ایسا ہی تھا۔فلم کامیڈیم انتہائی طاقت ور ہوتا ہے وہ اپنا پیغام دوسروں کے دماغوں تک پہنچانے میں سو فیصد تک کامیاب رہتا ہے۔ لیکن علاﺅ الدین خلجی وہ بہادر مسلمان بادشاہ تھا جس نے منگولوں کے شدید ترین حملوں کو اپنی بے پناہ جرا¿ت کے ساتھ پسپا کیا تھا بلکہ یوں کہا جاسکتا ہے کہ اگر علاﺅالدین خلجی نہ ہوتا تو برصغیر ہندوستان کا وجود ختم ہوگیا ہوتا اور شاید لیلا بھنسالی اور اس کی آل اولاد اور آباﺅ اجداد کا وجود بھی نہ ہوتا لیکن اب فلمیں کمرشل ہوگئی ہیں۔ بہرحال یہ فلم دیکھ کر مجھے افسوس ہوا تھا کہ فلم پروڈیوسر صرف کچھ کروڑ روپوں کےلئے کسی بہت بڑے بادشاہ کو دو گھنٹے میں مسخ کرکے پیش کیا تھا۔ آج جو فلم میں نے دیکھی وہ مزاحیہ فلم تھی جو مکمل طورپر کمرشل تھی اور نئی نسل دیکھتے ہوئے حسب معمول خوش ہو رہی تھی۔ اب زمانہ بدل گیا ہے۔اب ڈراموں اور فلموں کے ذریعے نئی نسل کی کردار سازی کا احسن فریضہ کب کا میڈیا کے لوگ بھول چکے ہیں۔تہذیب سے ہٹ کر ایسی باتیں جن کو دنیا کا کوئی معاشرہ قبول نہیں کرتا ان موضوعات پر آپ گھر کے کمرے میں خاندان کے افراد کے ساتھ ڈرامے کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں۔ وہ پیشہ ور لوگ کب کاکنارہ کرچکے ہیںجو ڈرامے اور فلم کی ایک ایک لائن اس غرض سے پڑھتے تھے کہ کہیں انجانے میں کوئی ایسا پیغام معاشرے کے نوجوانوں تک نہ پہنچ جائے کہ گمراہی کا ہلکا سا پہلو بھی نکل آئے۔ ایسے الفاظ ہمارے وقتوں میں ممنوع تھے جو کسی طرح بھی صنفی معنوں میں آتے تھے۔ کسی سکرپٹ کی ایڈیٹنگ اور ویٹنگ کتنا اہم سمجھی جاتی تھی۔ سنسر بورڈ اس پر اور بھی نگرانی کرتے تھے۔ نہ جانے اب یہ بورڈ ایسے عجیب و غریب موضوعات کو گھروں کے کمروں میں رکھے ہوئے ٹی وی جیسے طاقت ور میڈیم کیلئے کس طرح پاس کرتے ہیں۔